محبت کا نذرانہ
قرآن کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اوربعض انسان وہ ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنا چاہیے۔اورجو ایمان والے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب کو دیکھیں گے کہ ساری قوت اللہ ہی کے لیے ہے اوراللہ سخت عذاب دینے والا ہے ‘‘ (2:165)۔
آدمی اپنی فطرت اوراپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ خارجی سہاراچاہتا ہے ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے۔اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو،کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کومعبود بنانا ہے۔جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اورعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ وہ کسی سے حُبِّ شدید کرے اور جس سے کوئی شخص حبّ شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔
موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظر نہیں آتا اس لیے ظاہر پرست انسان عام طور پر نظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتا ہے جو دراصل خدا کو دینا چاہیے۔ یہ ہستیاںاکثر وہ سردار یا پیشو اہوتے ہیں جن کو آدمی ’’بڑا‘‘سمجھ لیتا ہے اورپھر وہ دھیرے دھیرے لوگوں کی توجہات کا مرکز بن جاتے ہیں۔لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں جیسا گر ویدہ انہیںصرف خدا کا ہونا چاہیے۔آدمی کی فطر ت کا خلا جو حقیقہً اس لیے تھا کہ اس کو خدا سے پُرکیا جائے وہاں کسی غیر خدا کو بٹھالیا جاتا ہے۔
انسان کے پاس کسی کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے وہ محبت ہے۔ایسی حالت میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص خدا جیسی باکمال ہستی کو پائے اوراس کی خدمت میںمحبت سے کم تر درجہ کی کوئی چیز پیش کرے۔محبت سے کم کوئی چیز نہ تو خدا قبول کرتا اورنہ کسی انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ خدا کے حضور میںمحبت سے کم کسی چیز کا نذرانہ پیش کرے۔اپنی چیزوں میںکم تر چیز کاہدیہ خدا کو پیش کرنا صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پایاہی نہیں۔