ضمیر کے خلاف
مشہور انگریزمورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975)نے اپنی آخر عمر میں ایک بارکہا کہ فلسطین پر یہودیوں کا بطور تاریخی وطن اپنا حق جتانا ایسا ہی ہے جیسے ریڈ انڈین قبائل کناڈا کی واپسی کا مطالبہ کریں۔یہودیوں نے نازیوں کے ظلم پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں مگر خود یہودی فلسطینی عربوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کررہے ہیں وہ بالکل اسی قسم کا ہے جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
ٹائن بی نے اپنا یہ بیان کناڈا میں دیا تھا۔اس وقت کناڈا میں حکومت اسرائیل کے سفیر مسٹر ہرزگ(1921-1972) تھے۔مسٹر ہرزگ نے برطانوی مورخ کو دعوت دی کہ اس مسئلہ پروہ اس سے مباحثہ کریں۔آرنلڈ ٹائن بی نے اس کو قبول کرلیا۔اس کے بعد مانٹریل کی میک گل یونیورسٹی میں ایک تقریب ہوئی جس میں دونوں جمع ہوئے۔ مسٹر ہرزگ نے کہا : جرمن نازیوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو مارڈالا تھا۔اس کے مقابلہ میں فلسطین میں جو عرب بے گھر ہوئے ہیں ان کی تعداد بہت معمولی ہے۔ان دونوں کو ایک جیسا کس طرح کہا جاسکتاہے۔
آرنلڈ ٹائن بی نے جواب دیا کہ میں نے جب نازیوں اوراسرائیلیوں کے مظالم کو ایک جیسا کہا تھا تواس سے مراد تعداد نہیں بلکہ جرم کی نوعیت تھی۔کسی شخص کے لیے سو فیصد سے زیادہ براہونا ممکن نہیں ۔قاتل کہلانے کے لیے ایک شخص کو قتل کردینا کافی ہے۔میں حیران ہوں کہ آپ لوگ میرے الفاظ پر کیوں اس قدر بوکھلا اٹھے ہیں ۔میں نے وہی بات کہی ہے جوتم میں سے ہر ایک کا ضمیر کہہ رہاہے۔
جب بھی آدمی کسی سچائی کی تردید کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اپنی تردید کررہا ہوتا ہے۔سچائی ہمیشہ آدمی کے اپنے دل کی آواز ہوتی ہے مگر آدمی ضد ،تعصب اوراپنی جھوٹی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر اس کو نہیں مانتا ،وہ اپنے انکار کوحق بجانب ثابت کرنے کے لیے ایسے الفاظ بولتا ہے جن کے بارے میں خود اس کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ ان میںکوئی وزن نہیں ۔
آدمی کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کا ساتھ نہ دے سکے۔ضد اورتعصب اورمصلحت سے مغلوب ہوکر وہ ایسے رخ پر چلنے لگے جس کے متعلق اس کا اندرونی ضمیر آواز دے رہا ہو کہ وہ صحیح رخ نہیں ہے۔یہ اپنی تردید آپ کرنا ہے۔یہ اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں قتل کرنا ہے۔یہ اپنے مجرم ہونے پر خود گواہ بننا ہے۔
کیسی عجیب ہے یہ محرومی ،مگر جب آدمی کی بے حسی بڑھ جاتی ہے تووہ اپنی محرومی کی ان کارروائیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے۔وہ اپنے کو ہلا ک کررہا ہوتاہے مگر سمجھتا ہے کہ میں اپنے آپ کوزندگی دے رہا ہوں۔