حسن سلوک
سماج میں جو لوگ بے سہارا ہوگئے ہوں ان کا سہارا بننا بہت بڑی عبادت ہے۔ ماں باپ آخری عمر کو پہنچ جائیں۔ایک بچہ یتیم ہوگیا ہو۔ایک شخص اپنے وطن سے دور سفر کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس جائے۔اس طرح کی دوسری صورتیں جب کہ آدمی کی ضروریات تمام تر دوسروں کے اوپر منحصر ہوجاتی ہیں ،اس وقت کسی کی مدد کرنا ،ایسے نازک وقتوں میں کسی کے کام آنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا بہت ثواب ہے۔ اس کی اہمیت قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی۔
اس طرح کے عمل کی اتنی افضلیت کیوں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی عاجزانہ حیثیت کا عملی اقرار ہے۔ہرانسان خدا کے سامنے کا مل طورپر عاجز ہے۔ہر آدمی کو خدا کے دئے سے ملتا ہے اور اسی کے چھیننے سے چھن جاتا ہے۔اسی کی معرفت کانام ایمان ہے اور اسی کو مراسم عبودیت کی شکل میں ادا کرنے کانام پرستش ہے۔
لیکن آدمی اپنے ایمان اوراپنی عبادت میںسچا ہے یا نہیں ،اس کی صحیح جانچ اس وقت ہوتی ہے جب کہ ایک کمزور اوربے سہارا انسان سے اس کا سابقہ پڑے۔ایسے ہر موقع پر گویا ایک شخص ہمارے سامنے اسی حالت عجز میں لایا جاتا ہے جس حالت عجز میں خود ہم کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔اپنے جس احتیاج کی بنا پر ہم کسی خدا سے اپنے لیے مدد کے طلب گارہیں اسی احتیاج میں مبتلا ایک شخص ہمارے سامنے کردیاجاتا ہے تاکہ ہم کسی استحقاق اوردبائو کے بغیر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرکے خدا سے کہیں کہ خدا یاتو بھی ہمارے ساتھ بہتری کا معاملہ فرماجب کہ تیرے اوپر نہ ہماراکوئی حق ہے اورنہ کوئی دبائو۔
عاجز انسان کے ساتھ حسن سلوک دراصل خداکے سامنے اپنی حیثیت عجز کا اقرار ہے۔یہ اپنی دعا کو خداکے آگے عمل کی صورت میںدہرانا ہے۔یہ خدا کے سامنے اپنی بےیارومددگار حیثیت کی دریافت ہے ایک مومن جب کسی ایسے آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کے روپ میں وہ خود اپنے آپ کو خداکے مقابلہ میں دیکھنے لگتا ہے۔
یہ ادراک اس کو تڑپا دیتا ہے۔وہ چاہنے لگتا ہے اس بے سہاراآدمی کو وہ سب کچھ دے دے جو اس کے پاس ہے تاکہ وہ اپنے خداسے وہ سب کچھ پاسکے جو خدا کے پاس ہے۔دوسرے کی مدد کرنا گویا خداسے یہ دعا کرنا ہے کہ خدایا تو بھی اسی طرح میری مدد کر۔