انسان کی بے چارگی
بنگلہ دیش بے شمار چھوٹے چھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے۔یہاں اکثر شدید طوفان آتے ہیں اورانسانی آبادیوں کو غیر معمولی نقصان پہنچاتے ہیں ۔اب تک کے ریکارڈ کے مطابق 1876ء میں یہاں سخت ترین طوفان آیا جس میں تقریباً تین لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ دیگر نقصانات اس کے علاوہ ہیں ۔
مئی 1985 میں یہاں پھر طوفان آیا۔طوفانی ہوائیں 150کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریباً ایک ہزار جزیروں کے علاقہ میں داخل ہوگئیں۔دوسری طرف سمندر کی چارمیٹر سے بھی زیادہ اونچی لہروں نے جزائر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تقریباً ایک لاکھ انسان اس کے آگے بے بس ہوکر ہلاک ہوگئے۔سیکڑوں بستیاں تنکوں کی طرح طوفانی لہروں میں بہہ گئیں۔ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنا عینی مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کیا:
Urir Char....looks like it has been bombed relentlessly. Not a single structure, save the concrete forest office stands erect. In fact, so fierce has been the force of the gale and tidal waves that not only the houses, but even the building materials were washed away, leaving behind just mounds.
ایک انگریز ی اخبار (29مئی 1985)نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مہلک طوفان جو قدرت کے غصہ کے سامنے انسان کی بے چارگی کو بے نقاب کرتاہے :
—murderous cyclones which expose man's helplessness before nature's fury.
حادثات انسان کوحقیقت واقعہ کی یاد دلاتے ہیں ۔وہ خداکی قدرت اورانسان کے عجزکا واقعاتی اعلان ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ خدا کل کے دن انسان کو پکڑے گا جس طرح آج اس نے انسان کو پکڑاہے۔موجودہ عارضی دنیا میں انسان اپنے عجزکو بھگتتا ہے۔کیسا عجیب ہوگا انسان کا حال اگروہ آخرت کی ابدی دنیا میں اپنے گنا ہ کو بھگتے۔