چھت گرپڑی
1968کا واقعہ ہے۔میں اعظم گڑھ کی ایک دوکان میں داخل ہوا۔وہاں میرے ایک جانے پہچانے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے ان کو سلام کیا۔مگرانھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔میں نے دوبارہ سلام کیا۔مگر میں نے دیکھا کہ اب بھی وہ خاموش ہیں ۔وہ میری طرف دیکھ رہے تھے مگر کچھ بول نہیں رہے تھے۔’’کیا یہ کوئی دوسرے صاحب ہیں ‘‘ میں نے سوچا۔مگر میری آنکھیں اس شبہ کی تردید کررہی تھیں۔جو شخص میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا وہ یقینی طور پر وہی شخص تھا جس کو میںپندرہ سال سے جانتا ہوں۔بظاہر یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ مجھ کو بھو ل گئے ہوں۔
دکان کے مالک کو جلد ہی حیرانگی کا احساس ہوگیا۔اس نے بتایا کہ اصل قصہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک سخت حادثہ پیش آگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے ہیں ۔ وہ اپنا نیا مکان بنا رہے تھے۔دیواریں کھڑی ہوگئیں تو حسب قاعدہ ان کے اوپر سانچہ بنا کر چھت ڈلوائی مگر ایک ماہ بعد جب سانچہ کھولا گیا تو ساری چھت دھڑام سے گر پڑی۔اس حادثہ کا ان کے دماغ پر اتنا اثر ہو اکہ وہ نیم پاگل ہوگئے۔اب وہ نہ کوئی کام کرتے ہیں نہ کھانا کھاتے ہیں اورنہ بولتے ہیں ۔بس بت کی طرح اِدھر اُدھر پڑے رہتے ہیں جیسا کہ اس وقت آپ ان کو دیکھ رہے ہیں ۔ مزید تحقیق کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کچھ لوگوں نے یہ کاروبار کیا ہے کہ سیمنٹ کے رنگ کی مٹی (پنڈول )کو باریک پیس کر بوریوں میں بھر دیتے ہیں ۔یہ مٹی دیکھنے میں بالکل سیمنٹ جیسی ہوتی ہے۔اس لیے لوگ اس کو سیمنٹ سمجھ کر خرید لیتے ہیں ۔مذکورہ بزرگ کو بھی اتفاق سے اسی قسم کی سیمنٹ مل گئی۔اوراسی سیمنٹ سے انھوں نے اپنی چھت بنوا دی۔ ظاہر ہے کہ ایسی سیمنٹ سے بنی ہوئی چھت کا وہی انجام ہونا تھاجو ہوا۔
اسی طرح کوئی دولت کو اپنی چھت بنائے ہوئے ہے۔کسی کو اپنے الفاظ پر بھروسہ ہے۔کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھیوں کی مدد اس کے لیے کافی ہے۔کوئی بڑوں کا سہارا پکڑے ہوئے ہے۔مگریہ سب جھوٹے سہارے ہیں ۔قیامت جب ظاہری سانچہ کو ہٹائے گی تو اچانک لوگوں کی چھت ان کے اُوپر اس طرح گرپڑے گی کہ وہاں کوئی تنکا نہ ہوگا جو آدمی کا سہارا بن سکے۔