انسا ن کی تلاش
انسان کے اندر ایک عجیب خصوصیت ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں ۔وہ ہے لامتناہی تلاش کا جذبہ۔ہر آدمی اپنے پیدائشی جذبہ کے تحت ایک ایسی نامعلوم چیز کی تلاش میں رہتا ہے جس کو اس نے پایا نہیں ۔کوئی بھی کامیابی اس کو اس طلب کے بارے میں مطمئن نہیں کرتی ،کوئی بھی ناکامی اس کے اندر سے اس جذبہ کو فنا نہیں کرپاتی۔فلاسفہ اس کو آئیڈیل کی طلب کہتے ہیں ۔
یہ آئیڈیل کی طلب ہی تمام انسانی سرگرمیوں کی حقیقی اورآخری قوت محرکہ ہے۔اگر یہ طلب نہ ہو تو دنیا کی تمام سرگرمیاں اچانک ٹھپ ہوکر رہ جائیں۔انسانی ذہن کی یہی وہ زبردست طلب ہے جس کو فرائڈ(1856-1939)نے غلط طورپر جنسی خواہش سے تعبیر کیا۔ایڈ لر(1870-1937)نے اس کو غلط طورپر حصول طاقت کی خواہش قرار دیا۔میک ڈوگل (1871-1938)نے غلط طورکہا کہ یہ انسان کی تمام حیوانی جبلتوں کے مخلوطہ کا ایک پُراسرار نتیجہ ہے۔ مارکس(1818-1883) نے اس کو غلط طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ انسانی زندگی کی معاشی خواہش ہے اوریہی اس کی تمام سرگرمیوں کو کنڑول کرتی ہے۔مگر ان توجیہات کو غلط قرار دینے کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ یہ چیزیں جن لوگوں کو پوری طرح ملیں وہ بھی مطمئن نہ ہوسکے۔ان کی اندرونی ہستی بھی اسی طرح بے چین رہی جس طرح ان چیزوں سے محروم رہنے والے بے چین نظر آتے ہیں ۔
انسان ہزاروں برس سے اپنے اس آئیڈیل کو دنیا کی چیزوں میں تلاش کررہا ہے ،مگر کوئی بھی شخص اس اطمینان سے دوچار نہیں ہواکہ اس نے اپنی تلاش کا مکمل جواب پالیا ہے ۔اس معاملہ میں بادشاہ یاامیر بھی اتنا ہی غیرمطمئن رہتا ہے جتنا کوئی بے زوراورمفلس آدمی۔یہ لمبا تجربہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’نظر آنے والی‘‘دنیا میں آدمی کی تلاش کا جواب موجود نہیں ۔اس کا جواب اس ’’نظر نہ آنے والی‘‘دنیا میں ہے جس کو آدمی محسوس تو کرتا ہے مگر دیکھ نہیں پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ طلب خدا کی طلب ہے۔آدمی جس آئیڈیل کو پانے کے لیے بے قرار رہتا ہے وہ خود اس کا خالق ہے۔ہر آدمی جس چیز کی تلاش میں ہے وہ دراصل وہ خدا ہے جو اس کی روح میں سمایا ہواہے۔ہر آدمی اپنی فطرت کے تحت مسلسل خداکی جستجو میں رہتا ہے وہ اپنے اس اندرونی جذبہ کے تحت دنیا کی مختلف چیزوں کی طرف دوڑتا ہے اورسمجھتا ہے کہ شاید یہ چیزاس کی تلاش کا جواب ہو۔مگر جب وہ اس کو پالیتا ہے اورقریب سے اس کا تجربہ کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزوہ نہیں جس کی تلاش میں وہ سرگرداں تھا۔