کل کو جانیے
ضیاء الرحمٰن (1936-1981)سابق صدر بنگلہ دیش ڈھاکہ سے چاٹگام گئے۔وہاں وہ 30مئی 1981کو سرکاری ریسٹ ہائوس میں آرام کررہے تھے کہ رات کے وقت ان پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کردیا گیا۔ان کو ہلاک کرنے والا بنگلہ دیش کا ایک فوجی افسر میجر جنرل منظور تھا۔میجر جنرل منظورنے یہ گمان کیاتھا کہ صدر ضیاء الرحمٰن کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت پر قبضہ کرلیں گے۔مگر ان کا اندازہ غلط نکلا فوج کے ایک دستہ کے سوا عام فوجیوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔صرف دو دن بعد2جون 1981کو مخالف فوجیوں نے انہیں گولی مارکر ہلاک کردیا۔
جنرل منظور کا جو انجام ہواوہی اس دنیا میں ہر آدمی کا انجام ہورہا ہے۔کسی کابظاہر فوج کی گولی کے ذریعہ ہوتا ہے اورکوئی فرشتوں کے ذریعہ موت کے انجام تک پہنچا دیا جاتا ہے۔مگر کوئی اس سے سبق نہیں لیتا کوئی ’’جنرل منظور ‘‘یہ نہیں سوچتا کہ اپنے حریف کو قتل کرنے کے اگلے ہی دن وہ بھی قتل کردیا جائے گا۔دوسرے کو موت کے گڑھے میں گرانے کے بعد وہ خود بھی لازمی طور پر موت کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے گا۔
یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔اس دنیا میں ہر آدمی کو کسی نہ کسی دائرہ میں اقتدار دیا جاتا ہے۔کسی کے اختیار کا دائرہ بڑاہے اورکسی کا دائرہ چھوٹا۔مگر عجیب بات ہے کہ ہر آدمی اپنے دائرہ میں وہی بن جاتا ہے جو دوسرا اپنے دائرہ میں بنا ہوا ہے۔یہاں ہر شخص ’’جنرل منظور‘‘ ہے۔ہر شخص دوسرے کی کاٹ میں لگا ہوا ہے۔ہر شخص دوسرے کی نفی پر اپنا اثبات کرنا چاہتا ہے۔ہرشخص اپنی حیثیت کا غلط اندازہ کرکے سمجھتا ہے کہ اگر اس نے دوسرے کو اس کے مقام سے ہٹا دیا تو اس کا خالی مقام اسے مل جائے گا۔وہ بھول جاتا ہے کہ جو چیز اس کاانتظار کررہی ہے وہ کسی کا خالی مقام نہیں بلکہ خود اس کی اپنی قبر ہے۔
ہر شخص جو آج اپنے کو کامیاب سمجھتا ہے وہ کل اپنے کو ناکام دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔یہ واقعہ ہر روز ہورہا ہے۔مگر کوئی بھی شخص آج کے بعد آنے والے کل کو نہیں دیکھتا۔ہر شخص اپنے ’’آج ‘‘کو جاننے کاماہر ہے ،کسی کو اپنے ’’کل ‘‘کی خبر نہیں ۔
اپنے آج کو جاننے والو،اپنے کل کو جانو۔کیونکہ بالآخر تم جس سے دو چار ہونے والے ہووہ تمھارا کل ہے نہ کہ تمھارا آج۔