انسان کاالمیہ
ڈاکٹر اتم پر کاش (1928-1982)ہندستان کے ایک نامور سرجن تھے۔ وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں شعبہ سرجری کے ہیڈ تھے۔ ڈاکٹر پر کاش کو پدم بھوشن کا انعام ملا تھا۔ شعبہ سرجری کی عالمی کانفرنس 17 فروری کو دہلی میں ہونے والی تھی جس کی صدارت کی کرسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر 14 فروری کو ان پر دل کا دورہ پڑا ور اسپتال پہنچتے پہنچتے ان کا انتقال ہو گیا۔اس وقت ان کی عمر صرف 54 سال تھی۔
سرجری پر ہونے والی ورلڈ کانفرنس کی کامیابی ان کے ذاتی وقار کو بہت زیادہ بڑھا دیتی۔ اسی بنا پر وہ اس کے معاملا ت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے تھے۔ انھوں نے راشٹرپتی سنجیواریڈی(1913-1996) کو آمادہ کر لیا تھا کہ وہ کانفرنس کا افتتاح کریں مگر جب سارے انتظامات مکمل ہو چکے تو راشٹرپتی بھون سکریٹریٹ سے بتایا گیا کہ راشٹرپتی ان کے اجلاس میں صرف اس وقت شرکت کر سکیں گے جب کہ مرکزی وزیر صحت بھی وہاں موجود ہوں۔ پروٹوکول (آداب شاہی ) کے مطابق ایسا ہونا ضروری ہے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر پرکاش کے منصوبہ میں وزیر صحت کو بلانا شامل نہ تھا مگر اب ضروری ہو گیا کہ وزیر صحت کو بھی شرکت اجلاس کی دعوت دی جائے۔ ڈاکٹر پرکاش نے وزیر صحت کے دفتر کا طواف شروع کیا مگر اب یہاں دوسری رکاوٹ حائل تھی وزیر صحت اجلاس میں شرکت پر راضی نہ ہو سکے۔ ایک ایسے اجلاس میں شرکت کرنا ان کی عزت نفس کے خلاف تھا جس کے اولین پروگرام میں ان کو شامل نہ کیا گیا ہو۔ یہ صدمات ڈاکٹر اتم پرکاش کے لیے اتنے سخت ثابت ہوئے کہ اجلاس کے تین دن پہلے ان پر دل کا سخت دورہ پڑا ور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ کوئی شخص اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتا مگر ایک اخباری مبصر (ہندستان ٹائمس، 16فروری 1982)کے یہ الفاظ بالکل درست ہیں کہ موت کے طویل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے وہ دہلی کے سب سے زیادہ پریشان آدمی تھے۔
He was the most worried man in town before he took the long road
آج آدمی وقار کے کھونے کو بھی برداشت نہیں کر پاتا۔ پھر آنے والی دنیا میں آدمی کا کیا حال ہو گا جب اس کو بھوک اور پیاس لگے گی مگر وہاں کھانا نہ ہو گا جس کو وہ کھائے اور پانی نہ ہو گا جس سے وہ اپنی پیاس بجھائے۔ وہ تیز دھوپ میں جل رہا ہو گا مگر اس کے لیے کوئی سایہ نہ ہو گا جس کے نیچے وہ پناہ لے۔ عذاب اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو گا مگر وہاں کوئی مددگار نہ ہو گا جو اس کی مدد کو پہنچے آہ وہ انسان جو کنکری کی چوٹ کو برداشت نہیں کر پاتا حالانکہ اس کے اوپر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ کر گرنے والا ہے۔