جب موت ذہنی طلسم کو توڑدے گی

ایران میں فروری 1979میں شاہ مخالفت عناصر غالب آگئے۔اس کے بعد خفیہ انقلابی عدالتیں قائم ہوئیں۔ سرسری سماعت کے بعد ان افسروں کو گولی مارکر ہلاک کیا جانے لگا جنھوںنے شاہ کے حکم کی تعمیل میں شاہ مخالف عناصر کوکچلنے کی کوشش کی تھی۔اس سلسلہ میں جو خبریں آرہی ہیں  ان میں بڑی عبرت کاسامان ہے۔

جنرل ربیع شاہ کی خفیہ پولس ساواک (Savak)میں اعلیٰ افسر تھے۔9اپریل 1979کو تہران میں ان لوگوں کو گولی مارکر ہلاک کردیاگیا۔ایران کی نئی انقلابی حکومت میں ان پر مقدمہ چلایا گیاتھا۔رائٹر کے مطابق انھوں نے اپنے بیان میں عدالت سے کہا:

I am sorry I served somebody until it was too late to discover he was nothing

مجھے افسوس ہے کہ میں شاہ ایران کے احکام کی تعمیل کرتا رہا۔میں اس کے بے حقیقت ہونے کو صرف اس وقت جان سکا جب کہ اس کوجاننے کا وقت نکل چکا تھا — یہی صورت زیادہ بڑے پیمانہ پر موت کے وقت پیش آتی ہے۔آدمی اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑتارہتا ہے۔یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے۔اس وقت اس کی آنکھ کھلتی ہے۔اب اس کومعلوم ہوتا ہے کہ جن خوش نماخیالات اورخوب صورت الفاظ کے سہاے وہ جی رہاتھا ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔موت کے جھٹکے کے بعد اچانک وہ ہوش میں آجاتا ہے۔مگر اب اس کا ہوش میں آنا بے کار ہوتا ہے۔کیونکہ یہ بدلہ پانے کا وقت ہوتاہے نہ کہ عمل کرنے کا۔

اسی طرح،رائٹر کے مطابق ،ایک اورملزم جنرل خواجہ نوری نے عدالت کے سامنے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:

Because of the heavy censorship. I was unaware of the real situation.

’’خبروں پر بھاری سنسر قائم ہونے کی وجہ سے میں حقیقی صورت حال سے بالکل بے خبر رہا‘‘۔ آخرت کے اعتبار سے بھی انسان کا حال یہی ہے۔آدمی اپنے خیالات میں اس طرح گم رہتا ہے کہ اس کو باہر کے حقائق دکھائی نہیں  دیتے۔وہ اپنی خواہشات کے خول میں بند رہتاہے۔وہ لفظی توجیہات وضع کرتاہے اوران کے سہارے جیتا رہتا ہے۔وہ اپنے مطابق حق اور ناحق کا ایک خود ساختہ ڈھانچہ گھڑتا ہے اوراپنے آپ کو اس کے حسب حال پاکر خوش ہوتا رہتا ہے۔وہ اپنی خوش خیالیوں اوردنیو ی کامیابیوں کے مطابق اپنے گرد ایک فرضی ہالہ بنالیتا ہے اوراس کے اندر اس طرح صبح وشام کرتا رہتا ہے جیسے وہ ابدی حصار میں آگیا ہے ، آدمی اسی طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ موت آکر اس کے ذہنی فریب کا پردہ پھاڑ دیتی ہے۔اب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس فکری گھروندے میں جی رہا تھا وہ فرضی طلسمات کے سوا اورکچھ نہ تھا۔وہ جن الفاظ کولکھ اوربول رہاتھا وہ معانی سے بالکل خالی تھے۔وہ جن کاموں میں مشغول تھا وہ عالم آخرت کے اعتبار سے کوئی قیمت نہ رکھتے تھے۔جن مشاغل پر اس نے خدا اوراسلام کا بورڈ لگا رکھاتھا وہ محض اس کی ایک ذاتی تجارت تھی۔وہ صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے متحرک تھا نہ کہ حقیقہً خد اکی رضا کے لیے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom