موجودہ دنیا ناکافی
گرسن ولوریا(Gerson Viloria)فلپائن کا ایک باشندہ ہے جس کی عمر 34سال ہے۔ وہ ایک ٹریثرری میں کلرک تھا۔ اس نے لوگوں کی طرف سے فرضی دستخط کرکے بہت سے لوگوں کی رقم وصول کرلی۔اس کا مقدمہ فلپائن کی ایک عدالت میں پیش ہوا۔جج کانام رومیواسکاریل (Romeo M.Excareal)تھا۔جج نے تفصیلی سماعت کے بعد گرسن ویوریا کو 17معاملات میں مجرم پایا۔قانون کے مطابق اس طرح کے ایک جرم میں آدمی کو10سال قید بامشقت کی سزا ملنی چاہیے۔اس کے مطابق جج نے مجرم کو170سال کی سزا دی۔اسی کے ساتھ اس نے مجرم پر4625ڈالر جرمانہ عائد کیا۔جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں سزا ئے قید میں اضافہ ہوجائے گا(ٹائمس آف انڈیا،9نومبر 1979)۔
مجرم کی عمر 34سال ہوچکی ہے۔اگر ’’قبل از وقت‘‘اس کا خاتمہ نہ ہو بلکہ وہ اپنی عمر طبعی کو پورا کرکے مرے تب بھی اس کی موت کے وقت اس کی سزا کی مدت میں کم از کم سو سال باقی رہ جائیں گے ۔
انسان کا ضمیر کسی عمل کا جو بدلہ یاکسی جرم کی جو سزاچاہتا ہے وہ موجودہ محدود دنیا میں ناممکن ہے۔جوہونا چاہیے اورجو ہورہا ہے کے درمیان یہ تضادبتاتا ہے کہ موجودہ دنیا نامکمل ہے۔اس کی تکمیل کے لیے ایک اوردنیا ہونی چاہیے جہاں یہ تضاد ختم ہوجائے اورجو کچھ ہونا چاہیے وہی عملاً بھی ہونے لگے۔
اسی قسم کاایک واقعہ تھائی لینڈ میں ہوا۔تھائی لینڈ کی ایک عدالت میں ایک خاتون پولیس کامقدمہ پیش ہوا۔اس کانام مسزامساپ (Mrs. Phenphanchong Imsap) ہے۔ وہ سرحدی علاقہ پٹچابون (Petchabun)میں تعینات تھی۔اس کا تعلق بیرونی افرادکے رجسٹریشن آفس سے تھا۔اس نے رجسٹریشن کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینااوران سے رشوت لینا شروع کیا۔وہ ستر ہ سال تک حکومت کو اوراسی کے ساتھ لوگوں کو فریب دیتی رہی۔اس مدت میں اس نے ناجائز طورپر تقریباً 25ہزار ڈالر کمایا۔عدالت نے خاتون پولیس کو مجرم قرار دیتے ہوئے اس کو ایک ہزار ایک سال کی قید بامشقت کی سزادی۔جج نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا کہ مجرم کو پیرول پر رہائی یا رحم کی درخواست کی رعایت نہ دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو(ٹائمس آف انڈیا،21مارچ 1981ء)۔
ظاہر ہے کہ خاتون پولیس عدالت کی سزا بھگتنے کے لیے مزید ایک ہزار سال تک زندہ نہیں رہے گی۔وہ یقینی طور پر اس سے بہت پہلے مرجائے گی۔پھر جج نے کیوں اس کو اتنی لمبی سزادی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی کا جذبہ انصاف چاہتا ہے کہ جو شخص کوئی بڑاجرم کرے اس کواس جرم کے بقدر لمبی سزادی جائے۔مگر موجودہ دنیا میں کوئی جج عملاً ایسا کر نہیں پاتا۔وہ مجرم کو ’’ایک ہزار سال ‘‘کی سزا دینا چاہتا ہے مگر آدمی کی محدود عمر اس کو ایسا کرنے نہیں دیتی۔آدمی کے جرم کی عمر ’’ایک ہزار سال ‘‘ہے اس کے جینے کی عمر صرف ’’پچاس سال ‘‘آدمی کے عمل اوراس کی عمر دونوں میں یکسانیت نہیں ۔یہ صورت حال ایک اوروسیع تر دنیا کا تقاضا کرتی ہے جہاں آدمی زیادہ لمبی عمر پائے تاکہ وہ پورے انصاف کے ساتھ اپنے عمل کا انجام پاسکے۔