گھاٹے والا
قرآن میں ارشاد ہوا ہے— کہو،کیا میں بتائوں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں کھوئی گئیں اور وہ اسی خیال میں رہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوںنے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا۔ پس ان کے اعمال ضائع ہو گیے ہم قیامت کے دن ان کے اعمال کا کچھ وزن قائم نہ کریں گے (18:103-105)۔
تمام محرومیوں میں سب سے زیادہ عجیب محرومی وہ ہے جب کہ آدمی کمائی کرے مگر اس کو اس کا حاصل نہ ملے وہ مہینہ بھر محنت کرے مگر وہ کوئی تنخواہ نہ پائے وہ تجارت میں اپنی ساری پونجی لگائے مگر اسے کچھ نفع حاصل نہ ہو وہ ارمانوں کے ساتھ اپنا گھر بنائے مگر اس میں اس کو چین کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہو۔
اگر کسی آدمی کے ساتھ ایسا حادثہ گزرے تو وہ بالکل بجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے اعضاء شل ہو جاتے ہیں ۔ اپنی محنت کے آخری نتیجے کو اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے دیکھنا اتنا بڑا حادثہ ہے جس کو کوئی بھی شخص برداشت نہیں کر سکتا۔
یہ دنیا میں اعمال کی بربادی کا حال ہے۔ پھر آخرت میں جب آدمی اپنے اعمال کو ابدی طور پر برباد ہوتے ہوئے دیکھے گا تو اس کا کیا حال ہو گا۔
جب وہ دیکھے گا کہ عمر بھر کی محنت سے بنایا ہوا اِس کا ڈ ھانچہ اچانک ڈھ پڑا۔ اِس کی خوش گمانیوں کا قلعہ ایک ہی جھٹکے میں ہمیشہ کے لیے مسمار ہو گیا۔
جب وہ دیکھے گا کہ دنیا میں محنت کے ساتھ حاصل کی ہوئی کمائی آخرت میں اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ دنیا میں کھڑا کیا جانے والا عظمتوں کا گنبد آخرت میں گرا ہوا پڑا ہے۔ دنیا میں جمع کی ہوئی نیک نامی آخرت میں بالکل بے قیمت ہو چکی ہے۔
جس آدمی نے اپنی دوڑ دھوپ کو صرف دنیا میں لگایا ہو اس کا آخرت میں یہی حال ہو گا کہ وہاں وہ بالکل مفلس بن کر کھڑا ہو گا۔ وہاں اس کی حیثیت صرف ایک لٹے پٹے انسان کی ہو گی یہ منظر آدمی کیلیے نا قابل برداشت حد تک سخت ہو گا۔ کا میابیوں پر فخر کرنے والے ناکامی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہوں گے۔ ترقیات پر ناز کرنے والے ایسے بد حال دکھائی دیں گے جیسے انھوں نے کبھی ترقی کا نام بھی نہیں سنا تھا۔