الٹا رُخ
ایک مولوی صورت آدمی ایکسپریس ٹرین کے فرسٹ کلاس میں داخل ہوا ۔اس کے سوا کیبن میں تین اور مسافر تھے اور تینوں پورے معنوں میں ’’ مسٹر ‘‘ تھے۔ مذکورہ مسافر کے سادہ لباس اور اس کے چہرے کی شرعی داڑھی نے اس کو اس ماحول میں اجنبی بنا دیا۔
کئی اسٹیشن گزر گئے۔ تینوں مسٹر آپس میں باتیں کرتے رہے مگر کسی نے مولوی کی طرف رخ نہیں کیا۔ مولوی شاید ان کے نزدیک اس قابل نہ تھا کہ اس سے بات کی جائے۔ آخر مولوی نے یہ کیا کہ اگلے اسٹیشن پر ایک انگریزی اخبار خریدا اور اس کو ہاتھ میں لے کر الٹی طرف سے دیکھنے لگا۔ مسٹر صاحبان یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑے۔ ایک شخص نے دوسرے سے انگریزی میں کہا۔ اس مولوی کو دیکھو الٹی طرف سے اخبار پڑھ رہا ہے۔ دوسرا بولا یہ شخص جب انگریزی نہیں جانتا تو اس کو خواہ مخواہ انگریزی اخبار خریدنے کی کیا ضرورت تھی۔
مسٹر صاحبان کو یقین تھا کہ مولوی ان کی گفتگو کو سمجھ نہیں رہا ہے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ مولوی ان سے زیادہ انگریزی جانتا ہے۔ اس کے بعد مولوی ان کی طرف مخاطب ہوا اور انگریزی زبان میں مسلسل بولنا شروع کیا۔ اس نے انگریزی میں کہا: کیا یہ کوئی قانونی جرم ہے کہ اخبار کو الٹی طرف سے پکڑا جائے۔ آخر آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں انگریزی زبان نہیں جانتا۔ اس کے بعد اس نے گفتگو کو دوسری طرف موڑ دیا۔ اس نے کہا:ایک اخبار کو الٹی طرف سے پکڑنا آپ کو اتنا عجیب معلوم ہوا مگر معاف کیجیے آپ اور آپ جیسے بے شمار لوگ پوری زندگی کو الٹی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں ۔
زندگی کو غیر مادی مقصد کی طرف سے پکڑنا چاہیے اور لوگ اس کو مادی مقاصد کی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں ۔ اس کو روح کی طرف سے پکڑنا چاہیے اور لوگ اس کو جسم کی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں ۔ زندگی کو دیکھنے کا صحیح رخ یہ ہے کہ اس کو آخرت کی طرف سے دیکھا جائے۔ مگر لوگ اس کو دنیاکی طرف سے دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارا سب سے اہم مسئلہ موت ہے، مگر تمام لوگ زندگی کو سب سے اہم مسئلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ خدا کی نظر سے انسان کو دیکھا جائے، مگر آج سارے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ انسان کی نظر سے خدا کو دیکھ رہے ہیں ۔
اخبار کا الٹا رخ ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے اور زندگی کا الٹا رخ کسی کو نظر نہیں آتا۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو اپنے کو دیکھنے والا سمجھتے ہیں ، مگر ان کو وہی چیز دکھائی نہیں دیتی جس کو انہیں سب سے زیادہ دیکھنا چاہیے۔