حقیقت انسانی
سب سے بڑی نیکی حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ اس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک خدا کو حاصل ہے۔اس کے مقابلہ میں انسان بالکل عاجز اوربے بس ہے۔مگر اس دنیا میں انسان کو بظاہر ایسے حالات میں رکھاگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح آزاد اورخودمختار محسوس کرے۔یہی انسان کا امتحان ہے۔جو آدمی حقیقی صورت حال کو سمجھے اور اس کا اعتراف کر کے خدا کے آگے جھک جائے ،وہ قابل انعام ٹھہرا۔اس کے برعکس جو آدمی امتحانی پردے کو پھاڑنے میں کامیاب نہ ہو اورخدا کی بڑائی کے آگے اپنے کو نہ جھکائے وہ مجرم ہے۔ایسا شخص عنقریب سخت ترین عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔
دنیا میںوہ مسئلہ بہت بڑے پیمانے پر پایا گیا ہے جس کو خرابی کا مسئلہ (Problem of evil) کہا جاتا ہے۔انسان کے ساتھ موجود دنیا میں بے شمار قسم کے دکھ لگے ہوئے ہیں ۔ایک شخص تندرست وتوانا ہے اوراچانک موت آکر اس کو دبوچ لیتی ہے۔ایک شخص کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے اوراس کے شاندار جسم کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔اسی طرح بیماریاں،قحط،زلزلے اورطرح طرح کی آفتیں انسان کے منصوبوں کو اس طرح تہس نہس کرتی رہتی ہے جیسے ان کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔
بظاہر یہ بڑا بے رحمی کا معاملہ ہے۔مگر اس کے اندر زبردست حکمت چھپی ہوئی ہے۔یہ تمام ناخوشگوار واقعات اس لیے پیش آتے ہیں کہ انسان کی آنکھ کھولیں۔وہ انسان کو یاددلائیں کہ بظاہر بااختیار ہونے کے باوجود وہ کس قدر بے بس ہے۔سب کچھ کا مالک ہونے کے باوجود وہ کتنا زیادہ بے کچھ ہے۔یہ خرابیاں دراصل بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت ہیں ۔اس طرح ظواہر کا پردہ پھاڑ کر انسان کو اصل حقیقت کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔قیامت میں جو پردہ مکمل طور پر پھاڑاجانے والا ہے وہ حادثات کے ذریعہ جزئی طور پر پھاڑدیاجاتاہے۔
دنیا کی مصیبتیں انسان کو اس کی بے بسی کی یاد دلاتی ہیں ۔وہ اس کو ذہنی طور پر اس قابل بناتی ہیں کہ وہ حقیقت واقعہ کو پالے اوراس کو مان کر خدا کے انعامات کا مستحق بنے۔ آنے والی ابدی دنیا میں انسان حقیقی طور پر آزاد اورخود مختار ہوگا۔وہاں وہ ہر قسم کے دکھ اورغم سے مکمل طور پر محفوظ رہے گا۔مگر یہ درجہ کسی کو بطور انعام ملے گانہ کہ بطور استحقاق۔ جس نے اپنے عجز کو جان لیا وہی اس قابل ہے کہ اس کو آزادی کی نعمت عطا ہو۔جو اپنی بے اختیاری پر راضی ہوگیا اسی نے اس اہلیت کا ثبوت دیا کہ خدا اس کو اپنی معیاری دنیا میں بااختیار بنا کررکھے۔