کتنا سنگین
اخبار ایک اعتبار سے موت کا خبر نامہ ہے۔ہر روز اخبار میں لوگوں کی موت کی خبریں ہوتی ہیں ۔مثلاً میرے سامنے 24فروری1985کا اخبار ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ چکردھرپور ناگپور کی دوبوگیوں میں آگ لگ گئی۔یہ آدھی رات کا وقت تھا۔تیز ہواچل رہی تھی۔آگ تیزی سے پھیلی۔مگر بریک کام نہ کرنے کی وجہ سے مسافر ٹرین کو فوراً ٹھہرانہ سکے۔اگلے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو بھرے ہوئے ڈبہ کے تقریباً ایک سو آدمی جل کر مرچکے تھے۔
دوسری خبروں میں صرف دہلی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ہندی ادیب چندرگپت ودیا لنکر 78سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔اجیت سنگھ (14سال) جیپ میں سفر کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوا اورمرگیا۔25سال کے ایک آدمی کی لاش بورے میں بند پائی گئی وغیرہ وغیرہ ۔
اس طرح کے واقعات ہر روز اورہر جگہ پیش آتے ہیں ۔وہ سادہ معنوں میں صرف موت کے واقعات نہیں ہیں ۔یہ مخلوق کی اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضری ہے۔یہ ایک انسان کا خداکی عدالت میں پہنچا یاجانا ہے۔یہ امتحان کے مرحلہ کو پور اکرکے ابدی انجام کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے۔
موت کایہ پہلو کتنا ہولناک ہے۔یہ موت کے واقعہ کو انتہائی سنگین بنادیتا ہے۔اتنا سنگین کہ اس سے زیادہ سنگین کوئی دوسرا واقعہ نہیں ۔
موت کے اس پہلو کا تقاضا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے۔لکھنے اوربولنے والے سب سے زیادہ اس کے بارے میں لکھیں اوربولیں۔ انفرادی مجلسوں اورعوامی اجتماعات میں سب سے زیادہ اس کا چرچا ہو۔مگر عملاً صورت حال اس کے برعکس ہے۔موت ہر آدمی کو صرف یہ بتاتی ہے کہ ’’فلاں شخص اس دنیاسے چلا گیا‘‘وہ کسی کو یہ نہیں بتاتی کہ ’’میں بھی اس دنیا سے جانے والا ہوں ‘‘ہر آدمی موت کے سفر کو دوسروں کا سفر سمجھتا ہے۔کسی کو موت کے واقعہ میں اپنا سفر دکھائی نہیں دیتا۔
آہ وہ انسان ،جو اس وقت تک ہو ش میں آنے کے لیے تیار نہیں جب تک اس کو ہوش میں آنے کے لیے مجبور نہ کردیاگیا ہو۔