خدا اورانسان
کائنات خدا کا آئینہ ہے۔یہاں خدا اپنی مخلوقات کے روپ میں نمایاں ہے۔آدمی کی حساسیت اگر زندہ ہو تو اپنے گردوپیش وہ خداکو پائے گا۔اپنے چاروں طرف وہ خدا کا مشاہدہ کرے گا۔خدا کی کائنات اس کے لیے خدا کا زندہ ثبوت بن جائے گی۔
دنیا میں زندگی کی سرگرمیاں اس بات کا کھلا ہوااعلان ہیں کہ اس دنیا کا خالق ایک زندہ ہستی ہے۔نہ کہ کوئی ایسی ہستی جو زندگی اورحیات سے محروم ہو۔جب سورج نکلتا ہے اور چھپی ہوئی چیزیں اس کی روشنی میں دکھائی دینے لگتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔جیسے خدا نے اپنی آنکھیں کھولی ہوں ،جیسے خدا ایک دیکھنے والی ہستی ہو اوراپنی آنکھوں سے سارے عالم کو دیکھ رہا ہو۔دریائوں میںجب پانی کا سیلاب رواں ہوتا ہے تو وہ پُرشور اعلان کرتا ہے کہ اس دنیا کا خالق ایک ایسا خالق ہے جو چلتا ہے اوراقدام کرکے آگے بڑھتا ہے۔جنگل کا شیر جب اپنا پنجہ نکال کر کسی جانور کو اپنی پکڑمیں لیتا ہے تو گویا وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا خدا ایک ایسا خدا ہے جو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے اور چیزوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔خلا کی بے پایاں وسعتیں اس حقیقت کا ابدی اظہار ہیں کہ اس کائنات کا خالق ایک لامحدود ہستی ہے ،وہ اپنی ذات میں بھی اتھاہ ہے اوراپنی صفات میں بھی۔
خدا کا یہ کائناتی مشاہدہ ایک طرف آدمی کے اندر خدا کا یقین پیدا کرتا ہے دوسری طرف اس کو بہت بڑے سوال سے دوچار کردیتا ہے۔اس دنیا کا اگرخدا ہے تو وہ اپنی دنیا میں ظاہر کیوں نہیں ہوتا۔دنیا میں بے پناہ برائیاں ہیں ۔یہاں ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے۔ایک شخص موقع پاکر دوسرے شخص کو ذبح کردیتا ہے۔یہ سب خدا کی دنیا میں ہر روز ہورہا ہے مگر خدا ظالموں کا ہاتھ نہیں پکڑتا،وہ مظلوموں کی جانب کھڑانہیں ہوتا۔
اس سوال کو صرف اس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب کہ مخلوقات کے بارے میں خالق کی اسکیم کو سمجھ لیاجائے۔موجودہ دنیا خدا کا مستقل بندوبست نہیں ،وہ صرف امتحانی بندوبست ہے۔یہ گویا ایک کھیت ہے جس میں مختلف پودوں کو اگنے کا موقع دے کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اچھا درخت ہے اورکون جھاڑ جھنکاڑ۔اس کے بعد اچھے درختوں کو ہر قسم کے بہترین مواقع دے کر تمام برے درختوں کو اکھاڑدیاجائے گااورپھر خداکی دنیا خدا کے معیاری انتظام کے تحت حسن اورلذت کی ابدی بہشت بن جائے گی۔