کائنات کی شاہراہ
انسان ایک کامل دنیا کے اندر غیر کامل وجود ہے۔ستارے اورسیارے ،ہوااورپانی ، درخت اورجانور سب ویسے ہی ہیں جیساکہ انہیں ہونا چاہیے۔وہ فطرت کی مقرر شاہراہ سے نہیں ہٹتے۔اس کے برعکس انسان فطرت کی شاہراہ سے ہٹ جاتا ہے۔انسان ویسا بنتا ہے جیسا اسے نہیں بننا چاہیے۔انسان وہ کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔
انسان کا یہ تضاد سوال بھی ہے اوراسی کے اندر اس کاجواب بھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے تمام مسائل کاسبب یہ ہے کہ وہ کائنات کی شاہراہ سے ہٹ گیا ہے۔اور اس کے تمام مسائل کاحل یہ ہے کہ وہ کائنات کی شاہراہ کو دوبارہ اختیار کرلے۔
فطرت کی جو شاہراہ بقیہ چیزوں کے لیے اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ ان کو ایک معیاری دنیا میں ڈھال دے ،وہی شاہراہ یقینی طورپر اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو معیاری معاشرہ میں تبدیل کرسکے۔
ہماری غیر معیاری دنیا کے باہر جب ایک وسیع ترمعیاری دنیا موجود ہے تو یقینی طور پر ہمارے لیے پہلا صحیح ترین انتخاب یہی ہوسکتا ہے کہ ہم اس دنیا کو سمجھیں اوراس کے اصولوں کواپنی زندگی پر منطبق کریں۔
کائنات کے مطالعہ سے جو واضح ترین بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہپوری مادّی کائنات ایک متعین قانون فطرت میںجکڑی ہوئی ہے۔وہ کسی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتی۔ہائیڈروجن اورآکسیجن کے مالیکیول سے پانی بننے کا جو اصول ہے وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے۔مختلف عناصر کے امتزاج سے کیمیائی مرکبات ہمیشہ ایک ہی لگے بندھے اصول کے تحت بنتے ہیں ۔معدنیات کا پگھلنا اورپانی کا بھاپ بننا ہمیشہ ایک ہی معلوم قانون فطرت کے مطابق وقوع میں آتے ہیں ۔یہی انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کے کردار کو اس حدتک معلوم اورمتعین ہونا چاہیے کہ اس کی پیشین گوئی کی جا سکے۔ انسان کا کردار قابل پیشین گوئی کردار ہونا چاہیے ،نہ یہ کہ خواہشات کے تحت وہ کبھی ایک قسم کے کردار کا مظاہرہ کرے اورکبھی دوسرے قسم کے کردار کا— اخلاقیات کا ایک ہی صحیح معیار ہے۔انسان کے لیے بھی اوربقیہ کائنات کے لیے بھی۔