امتحان گاہ
قرآن و حدیث میں زندگی کا یہ تصور دیا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف بطور آزمائش ملتا ہے۔وہ اس کا حق نہیں ہوتا۔آدمی ان چیزوں سے صرف ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھاتا ہے اس کے بعد موت آتی ہے اوراس کے ساز و سامان سے اسے جداکر دیتی ہے۔موت سے پہلے یہ چیزیں ہر ایک کو ملتی ہیں مگر موت کے بعد صرف اس کو ملیں گی جو آزمائش میں پورا اترے۔اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔
ایک طالب علم امتحان کے کمرہ میں ہے۔وہ اپنا تعلیمی امتحان دے رہا ہے۔اس وقت بظاہر وہ ایک مکان میں ہے۔اس کے پاس میزاورکرسی اوردوسرے ضروری سامان ہیں ۔اس کے خدمت گار بھی وہاں موجودہیں ۔
بظاہر دیکھنے والوں کو وہ صاحب مِلک آدمی نظر آتا ہے۔مگر یہ سب کچھ محض وقتی ہے۔ جیسے ہی وقت پوراہونے کا الارم بجتا ہے۔اچانک معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کا کچھ بھی نہ تھا۔ہر چیز جو وہاں اس کے پاس تھی اس سے واپس لے لی جاتی ہے۔اوروہ بلاتاخیر امتحان گھر کے باہر نکال دیاجاتا ہے۔
یہی معاملہ وسیع ترمعنوں میں دنیا کابھی ہے۔یہ دنیا انسان کے لیے ایک خدائی امتحان گاہ ہے۔یہاں ہر آدمی صرف اس لیے ہے کہ وہ اپنا امتحان دے۔ خدا نے ہرآدمی کے لیے مدت مقرر کر رکھی ہے۔جیسے ہی یہ مدت پوری ہوتی ہے۔فوراًموت کا فرشتہ آتا ہے اورآدمی کو جبراً اس دنیا سے نکال کر خدا کے سامنے حاضر کردیتا ہے تاکہ ہر آدمی کو اس کے عمل کے مطابق اس کا بدلہ دیا جائے۔
موت کا لمحہ امتحان کی مدت ختم ہونے کا لمحہ ہے۔جب یہ لمحہ آتا ہے تو آدمی جان لیتا ہے کہ ان چیزوںمیں سے اس کا کچھ نہ تھا جس کو وہ اپنا سمجھے ہوئے تھا۔جس مکان کو اس نے بنایا تھا وہ اس سے جدا کر دیا جاتاہے۔جس جائیداد کو وہ اپنی چیز سمجھتا تھا وہ اس سے چھین لی جاتی ہے۔جن آدمیوں کو وہ اپنے آدمی سمجھتا تھا وہ اس سے بچھڑجاتے ہیں ۔
یہ لمحہ ہر آدمی پر آنے والا ہے۔خوش قسمت ہے وہ جو اس کے آنے سے پہلے اس کو جان لے جو آنے سے پہلے اس کی تیاری کرلے۔