تو ہم پرستی
امریکاکی ری پبلکن پارٹی(Republican Party)کے ایک عہد یدار مسٹرسیلر (1921-2021ء)نے بتایا کہ امریکی صدررونالڈ ریگن (1911-2004)ہر وقت اپنی جیب میں ایک چھوٹی سی سونے کی نعل رکھتے ہیں۔یہ نعل ان کو صدر بننے سے تقریباً پانچ سال پہلے ان کے ایک دوست نے دی تھی۔صدر ریگن کو یقین ہے کہ اس سنہری نعل میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے ہیں۔وہ ان کو ہر آفت سے بچاتی ہے۔ چنانچہ مارچ 1981ء میں جب ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو ان کے خیال کے مطابق اسی نعل نے ان کو اس سے محفوظ رکھا تھا۔
یہ نعل ہر وقت صدر ریگن کے ساتھ رہتی ہے۔جون 1981ء کی ایک ملاقات میں مسٹر سیلر نے ان سے پوچھا :کیا آپ اب بھی اس نعل کواپنی جیب میں رکھتے ہیں۔صدر ریگن نے کہا ہاںضرور:
I sure do
اس کے بعد انھوں نے اپنی بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا اورمذکورہ نعل نکال کر دکھائی (ٹائمس آف انڈیا،24جون1981)۔
یہ بلا شبہ توہم پرستی (Superstition)ہے۔مگر اس توہم پرستی کا ایک معلوم سبب ہے۔وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں انسان کے ساتھ جو واقعا ت پیش آتے ہیں وہ ایسے پر اسرار ہوتے ہیں کہ آدمی پوری طرح ان کی توجیہ نہیں کرپاتا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چھپے ہوئے عوامل ہیں جو کسی کو کامیاب اورکسی کو ناکام کردیتے ہیں۔
کوئی شخص ایک نتیجہ سے دوچار ہوتا ہے اورکوئی شخص دوسرے نتیجہ سے۔اوردونوں میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں نہیں بتا سکتا کہ اس کے ساتھ جو ہواوہ کیوں ہوا۔ایک بار میں نے ایک بڑے تاجر سے پوچھا کہ تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔آخر میں کہا کہ ’’قسمت ‘‘اگر کوئی شخص اس کا تین سبب بتائے تو میں کہوں گا کہ— قسمت ، قسمت،قسمت۔
یہ پر اسراریت اس لیے ہے کہ سب کچھ کرنے والا خدا ہے۔مگر انسان چوں کہ غیبی خدا کو دیکھ نہیں پاتا اس لیے وہ کسی نہ کسی دکھا ئی دینے والی چیز کو اپنا خدا بنالیتا ہے۔خواہ وہ سونے کی ایک نعل ہویا پتھر کی ایک انگوٹھی۔
انسان مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا معبود بنائے۔خدا کو یا خدا کو چھوڑکر کسی اورکو۔