گروہی اعتراف
یہود تورات کو خدا کی کتاب مانتے تھے۔اسی طرح عیسائی انجیل کو خد اکی کتاب مانتے تھے۔مگر جب قرآن ان کے سامنے آیا تو اس کو انھوں نے خدا کی کتاب ماننے سے انکار کردیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ماننا گروہی ماننا تھا نہ کہ حقیقی ماننا۔وہ حق کو صرف اپنے گروہ کی بنیاد پر پہچانتے تھے نہ کہ اس کے جو ہر کی بنیاد پر چنانچہ انھوں نے اپنے گروہی حق کو مانا اورگروہ سے باہر جو حق تھا اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ (2:91)۔یعنی،اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو (قرآن) بھیجا ہے اس کو مانو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اوپر اترا ہے۔ اوروہ اس کا انکار کرتے ہیں جو اس کے سوا ہے حالانکہ وہ حق ہے اوراس کی تصدیق کرنے والا ہے جوان کے پاس ہے۔
یہ نفسیات جس کے تحت یہود ونصاریٰ نے قرآن کا انکار کیا تھا۔وہ آج پوری طرح مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔آج مسلمانوں کا بھی یہ حال ہو رہا ہے کہ وہ صرف گروہی صداقت کو جانتے ہیں ۔وہ چیزوں کو اپنے گروہ کی نسبت سے پہچانتے ہیں ۔ان کے گروہ سے باہر اگر کوئی خوبی پائی جاتی ہو تو اس کی انہیں کوئی خبر نہ ہو گی۔
مسلمان آج بے شمار گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ہر گروہ کا یہ حال ہے کہ وہ صرف اِس عالم کو عالمِ جانتا ہے جو اِس کے گروہ کا ہو۔ باہر کے عالم کی اِسے خبر نہیں ۔ ہر گروہ اپنے گروہ کے متقی کو متقی سمجھتا ہے۔ باہر کے متقیوں کی اِس کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ۔ وہی مصنف مصنف ہے جو اپنے حلقہ کا ہو۔ اپنے حلقہ سے باہر کی کسی چیز کو وہ اِس طرح نظرانداز کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو دکھائی ہی نہیں دیتی۔
خدا کے یہا ں اس انسان کی قیمت ہے جس نے حق کو جوہر کی بنیاد پر پہچانا ہو۔جو شخص گروہ کی بنیاد پر حق کو پہچاننے کی مہارت دکھائے۔اس کی قیمت صرف اس کے اپنے گروہ میں ہے ،خدا کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ۔