محسوس پرستی
قرآن میں خدا کے مقبول بندوں کے بارے میں ارشاد ہواکہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں :يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (2:3)اور غیر مقبول بندوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صرف دنیا کے ظاہر کوجانتے ہیں :يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا(30:7)۔
اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ شرک کیا ہے اور توحید کیا۔اگر لفظ بدل کر کہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ — شرک نام ہے حقائق کو محسوسات کی سطح پر پہچاننے کا ،اورتوحید نام ہے حقائق کو معنویت کی سطح پر پہچاننے کا۔مشرک انسان صرف ان خدائوں کو جانتا ہے جو محسوس طورپر اس کو اپنی آنکھوں سے نظر آتے ہیں ۔اس کے برعکس موحد انسان اس خدا کو جان لیتا ہے جو صرف تصور کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ موحد مومن بالغیب ہوتا ہے اورمشرک مومن بالشہود۔
غیر مومن دکھائی دینے والی چیزوں میں جیتا ہے اورمومن نہ دکھائی دینے والی چیزوں میں۔غیر مومن کی یافت عضو یاتی یافت ہوتی ہے اورمومن کی یافت ذہنی یافت۔غیر مومن کی پہنچ صرف ان چیزوں تک ہوتی ہے جن کو دیکھ کرجانا جاتا ہے اورمومن کی پہنچ ان چیزوں تک ہوجاتی ہے جن کو صرف سوچ کر جانا جاسکتا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں یہی انسان کی سب سے بڑی گمراہی رہی ہے۔پیغمبرلوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے مگر خدا چونکہ دکھائی نہیں دیتا اس لیے بہت کم لوگ ایسے نکلے جو خدا کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ بیشتر لوگوں نے انہیں محسوس چیزوں کو اپنا مرکز تو جہ بنالیا جن کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔روشن ستاروں کی پرستش سے لے کر دریائوں اورپہاڑوں کی پرستش تک ہر جگہ یہی ذہنیت کارفرمارہی ہے۔ پیغمبروں کی دعوت کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہردور میں یہ تھی کہ ان کے مخالفین صرف محسوس خدائوں سے آشنا تھے ،اس لیے پیغمبروں کی زبان سے غیر محسوس خداکی پکارکو سن کر وہ متاثرنہ ہوسکے۔
بزرگوں اورممتاز شخصیتوں کی پرستش کی نفیسات بھی یہی ہے۔خدا چونکہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اس لیے لوگ خدا کی عظمت کو پکڑ نہیں پاتے۔بزرگ اورممتاز شخصیتیں دکھائی دیتی ہیں اس لیے لوگ ان کی عظمت کو پکڑلیتے ہیں اوران کی پرستش کرنے لگتے ہیں ۔بزرگ پرستی نام ہے محسوس پرستی کا، اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔