رہنماکی ضرورت
ہم کو بھوک لگتی ہے۔ہم اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کھانا موجود تھا جو ہماری بھوک کو مٹائے۔ہم اپنی پیاس کو بجھانے کے لیے عمل کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں پانی موجودتھا جو ہماری پیاس کو بجھائے۔ایسا ہی معاملہ سچائی کا ہے۔آدمی ہمیشہ سچائی کا تلاش میں ہے۔یہ تلاش ہی اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ یہاں کوئی سچائی ہے جسے آدمی کو جاننا چاہیے۔سچائی کھانے اورپینے سے زیادہ بڑی ہے۔پھرجب ہماری چھوٹی طلب کا جواب اس دنیا میں موجود ہے تو ہماری بڑی طلب کاجواب یہاں کیوں نہ موجودہوگا۔
سچائی کا سوال اپنی حقیقت کو جاننے کا سوال ہے۔آدمی اچانک ایک روز پیدا ہوجاتا ہے۔حالاں کہ اس نے خود کو پیدانہیں کیاہے۔وہ اپنے آپ کو ایک دنیا میں پاتا ہے جو اس سے الگ خود اپنے آپ قائم ہے۔وہ پچاس سال یا سو سال اس دنیا میں رہ کر مرجاتا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ وہ مرکر کہاں جاتا ہے۔زندگی اورموت کی اسی حقیقت کو جاننے کا سوال سچائی کا سوال ہے۔
مگر ایک شخص جس طرح کھانا اورپانی کو جان لیتا ہے اسی طرح وہ سچائی کو نہیں جان سکتا۔سچائی یقینی طورپر لامحدوداورابدی ہے۔سچائی اگر لا محدود اورابدی نہ ہو تو وہ سچائی نہیں ۔مگر آدمی کی عقل اوراس کی عمر دونوں محدودہیں ۔محدود عقل لامحدود سچائی تک نہیں پہنچ سکتی۔محدودعمر کا آدمی ابدی سچائی کو دریافت نہیں کرسکتا۔
آدمی کی یہی نارسائی یہ ثابت کرتی ہے کہ سچائی کو جاننے کے لیے اسے پیغمبر کی ضرورت ہے۔’’پیغمبری‘‘کیاہے۔پیغمبری کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچائی جہاں تک آدمی اپنے آپ نہیں پہنچ سکتا تھا وہ خود آدمی تک پہنچ جائے۔جس سچائی کو ہم اپنی کو ششوں سے نہیں جان سکے ،وہ خود ظاہر ہوکر اپنے بارے میں ہمیں بتادے۔
حقیقت سے لوگوں کو پیشگی طور پر باخبر کرنے کے لیے اس کو خدانے پیغمبر کے ذریعہ کھولا۔موجودہ امتحان کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کو براہ راست ہر آدمی پر کھول دیاجائے گا۔پیغمبر نے بتایا کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ جس خداکی اطاعت ساری کائنات جبر کے تحت کررہی ہے اسی خداکی اطاعت انسان ارادہ کے تحت کرنے لگے۔ وہ اپنے اختیار سے خود کو خدا کے آگے بے اختیار بنالے۔خداکی دی ہوئی آزادی کے باوجود جو لوگ خدا کے محکوم بن جائیں ان کے لیے جنت اورجو لوگ آزادی پاکر سرکش بن جائیں ان کے لیے جہنم۔