کائنات کو پڑھیے

قرآن کتاب کائنات کی ڈکشنری ہے۔یہی بات قرآن مین ان لفظوں میں کہی گئی ہے:  يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ (13:2)۔یعنی، خدا کائنات کا انتظام کررہا ہے اورقرآنی آیتوں کے ذریعہ اس کی تفصیل بیان کرتاہے۔

ایک شخص کائنا ت کو دیکھتا ہے۔وہ اپنی کم فہمی سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ کا نیتجہ ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ نہیں  ،کائنات ایک صاحب ارادہ کے ارادی منصوبہ کے تحت وجود میں آئی ہے۔

ایک شخص دیکھتا ہے کہ کائنات بظاہر کچھ اسباب کے تحت چل رہی ہے۔وہ سمجھ لیتا ہے کہ کائنات ایک عظیم خود چالو مشین ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ نہیں  ،کائنات کو خدا کے فرشتے خدا کے حکم سے چلا رہے ہیں ۔

ایک شخص انواع حیات کے بعض ظاہری پہلووں کی بنا پر یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ زندگی کی تمام قسمیں سلسلۂ ارتقا کے تحت وجود میں آئی ہیں ۔یہاں قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے اوراس کو بتاتا ہے کہ نہیں ۔زندگی کی مختلف قسمیں ایک خالق کی تخلیق سے ظہور میں آئی ہیں ۔

کائنات کو دیکھیے تو یہاں آرٹ اورکمال کے حیرت انگیز نمونے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں ایٹم رقص کررہے ہیں ۔یہاں دوبے جان مادے باہم مل کر تیسری نئی چیز میں ڈھل جاتے ہیں ۔یہاں بے شمار ستارے سفر کررہے ہیں  ان کی رفتار میں ایک سکنڈ کابھی فرق نہیں  ہوتا۔یہاں ایک بیج سر سبز درخت کی صورت اختیار کررہا ہے۔یہاں زندگی کا سیلاب چاروں طرف نظر آتا ہے۔اس قسم کے بے شمار عمل یہاں جاری ہیں  مگر تمام عمل خاموشی کے ساتھ انجام پارہے ہیں ۔کائنات کا کوئی کردار اپنا تعارف نہیں  کراتا ،وہ انسان سے ہم کلام ہوکر اپنے بارے میں کچھ نہیں  بتاتا۔

آدمی یہ دیکھ کر سوچنے لگتا ہے کہ کائنات شاید گونگے شاہکاروں کا عجائب خانہ ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا کے ہنگامے بے مقصد نہیں ۔ایک وقت آنے والا ہے جب کہ دنیا کی معنویت پوری طرح ظاہر ہو۔اس وقت تما م چیزیں بول پڑیں گی جس طرح خاموش ریکارڈ گرامو فون کی سوئی کے نیچے آتے ہی بولنے لگتا ہے۔اس دن تمام کمیوں کی تلافی ہوگی جو موجود ہ دنیا میں نظر آتی ہیں ۔انسان اپنے تمام سوالات کا جواب پالے گا۔ہر انسان اپنے اس انجام کو پہنچ جائے گاجہاں باعتبار حقیقت اسے پہنچنا چاہیے۔

معیاری دنیا

آدمی پیدائشی طور پر معیار پسند (Idealist) ہے۔ہر آدمی ایک معیاری دنیا (Ideal world)کی تلاش میں ہے۔مگر اس دنیا میں معیاری دنیا کا بننا ممکن نہیں ۔اس دنیا میں آدمی کو صرف معیاری نظریہ دیا جاسکتا ہے نہ کہ معیاری دنیا۔

معیار ی دنیا بننے کی جگہ صرف آخرت ہے۔موجودہ دنیا امتحان کی حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سی محدودیتیں (Limitations)ہیں ۔یہ محدودیتیں خود خالق کی طرف سے ہیں  اوران کی موجودگی میں یہاں معیاری دنیا بننا ممکن نہیں ۔اسی کے ساتھ امتحان کی مصلحت کے تحت یہاں سے ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔یہاں اگر نیک لوگوں کو عمل کی آزادی ہے تو یہاں برے لوگوں کو بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہیں  کریں۔چنانچہ باربار ایسا ہوتا ہے کہ نیک لوگ ایک نقشہ بناتے ہیں  اور برے لوگ شرارتیں کرکے اس نقشہ کو توڑ ڈالتے ہیں ۔

امتحان کا تصور موجودہ دنیا کو سمجھنے کی کنجی ہے۔فلاسفہ اورمفکرین اس کنجی کو نہ پاسکے۔ اس لیے دنیا کو سمجھنے میں بھی وہ ناکام رہے۔انھوں نے موجودہ دنیا میں اپنی پسند کی دنیا بنانی چاہی۔مگر ’’ناقص دنیا‘‘میں ’’کامل دنیا‘‘نہیں بن سکتی تھی ،چنانچہ ان کے حصہ میں ذہنی انتشار کے سوا اورکچھ نہ آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری دنیا نہیں  بن سکتی۔معیاری بننے کی جگہ آخرت ہے۔یہاں صرف یہ ممکن ہے کہ لوگوں کو خد اکی اسکیم سے آگاہ کیاجائے اوران کو آخرت پسند ی کی زندگی گزارنے کی طرف متوجہ کیا جائے اس دعوت کے نتیجہ میں اگر انسانوں کی بہت بڑی تعداد دین حق پر آجائے تو ان کے اجتماع سے یقینا ایک ایسا معاشرہ بن جائے گا جو نسبتاً بہتر معاشرہ ہوگا۔نیز اگر حالات نے مساعد ت کی تو یہ گروہ غیر دینی نظام کے اوپر غلبہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔اوروہ چیز بھی قائم ہوسکتی ہے جس کو دینی حکومت کہا جاتا ہے۔

تاہم اس کی کوئی ضمانت نہیں  کہ یہ معاشرہ یقینی طورپر ’’معیاری ‘‘معاشرہ ہوگا۔اورنہ اس کی کوئی ضمانت ہے کہ وہ مستقل طورپر باقی رہے گا۔یہ ساری چیزیں خدانے آخرت کی دنیا میں رکھ دی ہیں  اورجو چیزیں مالک کائنات نے اگلی دنیا میں رکھ دی ہوں ان کو ہم موجودہ دنیا میں کبھی نہیں  پاسکتے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom