قدرتی مناظر
مسٹر یو۔کے مو کھاپادھیا ئے لند ن گئے۔وہاں ان کی ملاقات ایک معمر انگریز سے ہوئی جو پچاس سال پہلے برٹش راج کے زمانہ میںرائل ایر فورس کے افسر کی حیثیت سے ہندستان میں مقیم تھا۔اس نے مسٹر موکھاپا دھیائے سے بہت دل چسپی کے ساتھ ہندستان کے حالات پوچھے۔اس نے بتایا کہ اس کا قیام زیادہ تربمبئی اورپونہ میں تھا۔اس نے عجیب محویت کے انداز میںبتایا کہ بمبئی اور پونہ کے درمیان ٹرین کاسفر اس کو بہت پسند تھا۔یہ پوراسفر دریائوں ،جنگلوں اورقدرت کے مناظر کے درمیان ہوتاتھا۔ اس نے کہا کہ میںدوبارہ ہندستان جانا چاہتا ہوں تاکہ ان مناظر کو دیکھ کرخوشی حاصل کروں۔
مزید سوالات کے درمیان مسٹر موکھاپادھیا نے مذکورہ انگریز کو بتایا کہ اب پونہ پہلے جیسا پونہ نہیں ہے۔اب وہ پونے کہا جاتاہے۔اس کی آبادی دس گنا بڑھ گئی ہے۔نئی نئی سڑکیں اورروشنیوں کے انتظام نے اس علاقہ میں قدرتی مناظر سے زیادہ مشینی مناظر کاماحول پیداکردیاہے یہ سن کر اچانک اس انگریز کا ساراشوق ختم ہوگیا۔اس نے کہا:
NO. I don't think I will go to India
My India probably does not exist
نہیں،میں نہیں سمجھتا کہ مجھے انڈیا جانا چاہیے۔میراانڈیااب غالباًموجودنہیں (ٹائمس آف انڈیا، 3فروری1984)۔
مشینی مناظردیکھنے سے ’’انسان ‘‘یاد آتا ہے اورقدرتی مناظر کو دیکھنے سے ’’خدا‘‘یاد آتاہے۔مشینی مناظر میں انسان کی کاریگری کادھیان آتا ہے اورقدرتی مناظر میں خدا کی کاریگری کا ۔مشینی مناظر انسان کوانسان سے ملا تے ہیں اورقدرتی مناظر انسان کو خدا سے ملاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مشینی مناظر میںانسان کووہ سکون نہیں ملتاجو قدرتی مناظر میں اس کو ملتا ہے — أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(13:28)۔ سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
قدرتی مناظر کیاہیں۔وہ خداکی صفات کا آئینہ ہیں۔آسمان کی وسعت خدا کی بے پایاں ہستی کا تعارف ہے۔سورج خدا کے سراپانورہونے کا اعلان کررہا ہے۔دریا کی روانی خداکے جوش رحمت کی گویا ایک تمثیل ہے۔پھو لوں کی مہک اورخوبصورتی خدا کے حسن کی ایک دور کی جھلک ہے۔اگر دیکھنے والی آنکھ ہوتو اس کو قدرتی مناظر میں خدا کا جلوہ دکھائی دے گا۔