مستقبل کا یقین
ڈارٹنگٹن ہال(Darington Hall) انگلینڈ کا ایک ممتاز اسکول ہے۔وہاں ایک طالب علم کو (1983 میں) سالانہ پانچ ہزار پونڈ تعلیمی فیس دینی پڑتی ہے۔اس کے پرنسپل ڈاکٹر بلیکشا (Dr. Lyn Blackshaw) نے 11جولائی 1983کو اسکول اسٹاف کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجود ہ حالات میں طلبہ کو اپنی ڈگری بے قیمت معلوم ہونے لگی ہے۔ان کو یقین نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کے بعد اپنی پسند کے مطابق کوئی روز گار حاصل کرلیں گے۔اس بے یقینی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے اندر جھنجھلاہٹ کی نفسیات پیدا ہورہی ہے۔ اور وہ کثرت سے جرائم کرنے لگے ہیں ۔انھوں نے کہا:
The worst thing we can do for our children is to destroy their faith in the future.
سب سے بری چیز جو ہم اپنے بچوں کے لیے کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں ان کے یقین کو برباد کردیں (سنڈے ٹائمس ،لندن4ستمبر 1983)۔
پرنسپل کے اس جملہ پرہم یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے بعد روز گار حاصل کرنے کا مسئلہ انسان کے ’’مستقبل‘‘ کا صرف ایک چھوٹا ساجزءہے۔مستقبل کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔وہ زندگی کے موجودہ مرحلہ سے لے کر موت کے بعد کی ابدی زندگی تک چلا گیاہے۔
انسان کو کامل اطمینان اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس کو اس کے پورے مستقبل کے بارے میں پر امید نقطہ نظر مل جائے۔جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے جتنے غالب افکار ہیں سب نے موت کے بعد ابدی مستقبل کے بارے میں انسان کے یقین کو برباد کردیا ہے یہی جدید انسان کے عدم اطمینان کی سب سے بڑی نفسیاتی وجہ ہے۔
انسان کو جب تک ایک ایسا کامل نقطۂ نظر نہ دیا جائے جو اس کے حال اورمستقبل کو ابدی طور پر پُرامید بناتا ہو وہ کبھی حقیقی معنوں میں مطمئن نہیں کرسکتا۔نوجوان کو اپنے دنیوی مستقبل کا مسئلہ پریشان کرتاہے مگر جب وہ اپنا دینوی مستقبل تعمیر کرچکا ہوتا ہے تو اس کے بعد مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔اب دوسرے سوالات اس کو پریشان کرنے لگتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ پریشانیوں سے آدمی اسی وقت نجات پاسکتا ہے جب کہ وہ ابدی عمر تک کے لیے اپنے سوالات کا جواب پالے نہ کہ صرف وقتی عمرتک کے لیے۔