موت کے دوسری طرف
سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں۔مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا :’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا۔مگر موت نے مجھ کو فتح کرلیا۔افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے‘‘۔نپولین بونا پارٹ(1769-1821) کے آخری احساسات یہ تھے :’’مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں ۔میں دو چیزوں کا بھوکا تھا۔ایک حکومت ،دوسری محبت۔ حکومت مجھے ملی مگر وہ میراساتھ نہ دے سکی۔ محبت کومیں نے بہت تلاش کیامگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔ انسان کی زندگی اگر یہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقینا انسانی زندگی ایک بے معنی چیزہے۔ کیونکہ کہ اس کا انجام مایوسی اوربربادی کے سوا کچھ نہیں ‘‘۔ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔مگر آخر عمر میں اس نے کہا :’’میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی ،پھر بھی میں غم غلط نہ کرسکا۔میں نے بے حد غم اورفکر کی زندگی گزاری ہے۔زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جومیں نے بے فکری کے ساتھ گزاراہو۔اب میں موت کے کنارے ہوں۔ جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی‘‘۔یہی ہر انسان کا آخر ی انجام ہے۔مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے۔خلیفہ منصورعباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا:اگر میں کچھ دن اورزندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگادیتا جس نے مجھے باربار سچائی سے ہٹادیا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے۔مگر یہ بات مجھ کو اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا۔
دنیا کے اکثر کامیاب ترین انسانوں نے اس احساس کے ساتھ جان دی ہے کہ وہ دنیا کے ناکام ترین انسان تھے۔حقیقت یہ ہے کہ موت کے قریب پہنچ کر آدمی پر جو کچھ گزرتا ہے اگر وہی اس پر موت سے پہلے گزرجائے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ہر آدمی جب موت کے کنارے کھڑاہوتا ہے تو اس کو وہ تمام رونقیں راکھ کے ڈھیرسے بھی زیادہ بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں جن میں وہ اس قدر گم تھا کہ کسی اورچیز کے بارے میں سوچنے کی اسے فرصت ہی نہ ملی۔اس کے پیچھے ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ کھوچکا اورآگے ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔
موت جب سر پر آجائے اس وقت موت کو یاد کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ۔موت کو یاد کرنے کا وقت اس سے پہلے ہے۔جب آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر ظلم کرے اوراپنی ظالمانہ کارروائیوں کو عین انصاف کہے اس وقت وہ کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اس وقت وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتا ہے جو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔مگر جب اس کی طاقت ختم ہوجاتی ہے ،جب اس کے الفاظ جواب دینے لگتے ہیں ، جب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ موت کے بے رحم فرشتہ کے قبضہ میں ہے اس وقت اس کو اپنی غلطیاں یاد آتی ہیں ۔حالاں کہ یاد آنے کا وقت وہ تھا جب کہ وہ غلطیاں کررہا تھا۔اورکسی نصیحت کی پرواکرنے کے لیے تیار نہ تھا۔