کائناتی نمونہ
ایمرسن (1803-1882)کا قول ہے کہ فطرت اس اصول پر عمل کرتی ہے کہ — سب ہر ایک کے لیے اورہر ایک سب کے لیے
Nature works on a method of 'all for each and each for all'.
یہ ایک لفظ میں کائنات کے عمل کی نہایت جامع تعبیر ہے۔کائنات میں بے شمار چیزیں ہیں ۔مگر ان کا عمل حد درجہ تو افق کے ساتھ ہوتا ہے۔ان میں سے ہر چیز اس طرح عمل کرتی ہے کہ اس کا عمل دوسری تمام چیزوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔اسی طرح تمام چیزیں اس طرح متحرک ہوتی ہیں کہ ان کی حرکت ہر واحد جزء سے کامل طورپر مطابق رہے۔
یہ گو یا خدا کا ایک نمونہ ہے جو اس نے اپنی دنیا میں قائم کررکھا ہے۔انسان کو بھی اسی نمونہ پر چلنا ہے۔انسانی آبادی میں بھی یہی نظام مطلوب ہے کہ ہر فرد اس طرح زندگی گزارے کہ اس سے دوسروں کو فائدے پہنچے اورمجموعی طور پر پوری انسانیت اس طرح کام کرے کہ اس کا کام فرد کی ترقی اورکامیابی میں معاون بن رہا ہو۔فرد کا عمل جماعت سے ہم آہنگ ہوا اورجماعت کا عمل فرد سے ہم آہنگ۔
کائنات کی صورت میں خدانے ایک زندہ نمونہ قائم کردیا ہے جو ہر صبح وشام لوگوں کو بتارہا ہے کہ وہ کس طرح رہیں اورکس طرح نہ رہیں ۔کون سا انسان خدا کے یہاں قابل قبول ٹھہرے گااورکون سا انسان خدا کے یہاں ردکر دیاجائے گا۔
ایک درخت اورکائنات کی مثال لیجیے۔کائنات میں حرارت ہے۔کشش ہے۔ہوا ہے ،پانی ہے۔ان میں سے ہر چیز درخت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔بیکٹیریا سے لے کر سورج تک تمام چیزیں درخت کے لیے گویا کائناتی دسترخوان ہیں ۔ ہر چیز درخت کو عین وہی چیز دے رہی ہے جو اس کی فطرت کے مطابق اسے ملنا چاہیے۔
دوسری طرف ایک درخت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ درخت اس دنیا کی کسی چیز سے ٹکرائے بغیر اپنا ارتقائی سفر طے کرتا ہے۔اس کی لکڑی ،اس کی پتی ،اس کا پھول ،اس کا پھل ،غرض اس کی چیز بقیہ دنیا کے لیے عین کارآمد ہے۔حتیٰ کہ اس کا کاربن لینا اورآکسیجن نکالنا بھی عین خارجی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ہے — جزء اورکل یافرد اوراجتماع کے درمیان یہی کامل مطابقت انسان سے بھی مطلوب ہے۔اس کے سوا انسان کی کامیابی کا کوئی دوسراراستہ نہیں ۔