خدا کا داعی
ایک سائنس داں ایک بلڈنگ کے اندر ہے۔اس کے آلات اس کو بتاتے ہیں کہ چند منٹ کے اندر یہاں بھونچال آنے والا ہے۔ دوسری طرف وہ دیکھتا ہے کہ بلڈنگ کے اندر بعض دوسرے انسانی مسائل بھی ہیں ۔ایسی حالت میں سائنس داں کیا کرے گا۔ اس وقت دوسرے مسائل اس کی نظر میں چھوٹے ہوجائیں گے۔وہ ان کو بھول جائے گا۔ وہ صرف ایک ہی آواز دے گا — لوگو،چند لمحہ میں بھونچال اس بلڈنگ کو ڈھادینے والا ہے۔تم لوگ فوراً بلڈنگ سے نکل کر باہر آجائو۔سائنس داں اس وقت بلڈنگ کے مسائل پر تقریر نہیں کرے گابلکہ وہ بلڈنگ کو چھوڑنے کا مبلغ بن جائے گا۔
اب دوسری مثال لیجیے۔ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جو کائنات میں ایسے مقام پر کھڑاہوا ہے جہاں سے وہ ایک طرف ہماری موجودہ دنیا کو دیکھ رہا ہے اوردوسری طرف جنت کا باغ اورجہنم کی آگ کے مناظر بھی اس کو بخوبی طور پر نظر آرہے ہیں ۔ایسا آدمی اس وقت کیاکرے گا۔وہ کون سی بات ہوگی جس کے متعلق وہ چاہے گاکہ لوگوں کو اس کی خبر دے۔
یقینی طورپر وہ ایسا نہیں کرے گا کہ دنیا کے مسائل پر تقریر شروع کردے یا فلاح تمدن کا نسخہ لوگوں کو بتانے لگے۔اس کے پاس کہنے کو جو سب سے بڑی بات ہوگی وہ صرف یہ ہوگی کہ لوگو،جہنم کی آگ سے بھاگو اوراپنے آپ کو جنت کا مستحق بنائو۔
ایک شخص اگر اس سے بے خبر ہوکہ ایک سخت بھونچال اگلے لمحہ عمارت کو ڈھادینے والا ہے تو وہ دوسری باتوں کو مسئلہ سمجھ سکتا ہے۔مگر جو شخص بھونچال کو آتے ہوئے دیکھ رہا ہو اس کو بھونچال کے سوا کوئی اوربات یاد نہیں رہے گی۔حتیٰ کہ وہ ادبی تقاضے کے مطابق شاید جملہ کہنا بھی بھول جائے کہ لوگو،بھونچال آرہا ہے ،تم لوگ اپنے آپ کو بھونچال سے بچائو۔وہ سب کچھ بھول کر صرف یہ پکارتا ہوا بھاگے گا کہ — بھونچال ،بھونچال۔
خدا کے داعی کا معاملہ بھی یہی ہے۔خدا کا داعی وہ ہے جس کو پردہ کے اس پارسے جنت کی خوشبو آرہی ہواور وہ جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔ایسا شخص یقینی طور پر صرف آخرت کی باتیں کرے گا۔دوسری چیزیں اس کے ذہن سے اس طرح نکل جائیں گی۔جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ۔