کائنات کا دستر خوان
قرآن میں ہے کہ — اللہ آسمان وزمین کا نور ہے (24:35)۔اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا تمام کی تمام خدائی صفات کا مظہر ہے۔حساس قلب کو یہاں کی ہر چیز میں خدا کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ رزق خداوندی کا دستر خوان ہے۔
خدا پر ایمان اگر کسی آدمی کو وہ حساسیت دے دے جو خدا پر سچے ایمان سے پیدا ہوتی ہے تو کائنات میں فی الواقع اس کو ہر طرف خدا کا نور دکھائی دے گا۔ہواکے لطیف جھونکے جب اس کے جسم کو چھوئیں گے تو اس کو ایسا محسوس ہوگا کہ لمس خداوندی کا کوئی حصہ اسے مل رہا ہے۔دریائوں کی روانی میں اس کو رحمت حق کا جوش ابلتا ہوا نظر آئے گا۔ چڑیوں کے چہچہے جب اس کے کان میں رس گھولیں تو اس کے دل کے تاروں پر زمزمۂ خداوندی کے نغمے جاگ اٹھیں گے۔پھولوں کی مہک جب اس کے مشام جان کو معطر کرے گی تو وہ اس کے لیے خدائی خوشبو میں نہانے کے ہم معنی بن جائے گی۔
ساری کائنات مومن کے لیے رزق روحانی کا دستر خوان ہے ،ویسے جیسے جنت اس کے لیے رزق مادی کا دستر خوان ہوگی۔موجودہ دنیا کی تمام چیزوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان کو دیکھ کر انسان عبرت حاصل کرے،ان کے ذریعہ وہ ان ربانی کیفیات کو پالے جوان کے اندر ان لوگوں کے لیے رکھ دی گئی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔
ڈھاک ایک معمولی درخت ہے۔مگر اس کے اورپر بے حد حسین پھول اُگتے ہیں ۔ موسم خزاں کے پت جھڑکے بعد اس کا درخت بظاہر ایک سوکھی لکڑی کی مانند ،اس سے بھی زیادہ ایک سوکھی زمین پر کھڑا ہوتا ہے۔اس کے بعد ایک خاموش انقلاب آتا ہے۔حیرت انگیز طورپر نہایت خوش رنگ پھول اس کی شاخوں میں کھل اٹھتے ہیں ۔سوکھی لکڑی کا ایک ڈھانچہ لطیف اوررنگین پھولوں سے ڈھک جاتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایک محروم اوربے قیمت وجود کے لیے خدانے خصوصی طورپر اپنی خوب صورت چھتری بھیج دی ہے۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بندہ خدا اس کو دیکھ کر کہے—’’اےخدا !میں بھی ایک ڈھاک ہوں،تو چاہے تو میرے اوپر حسین پھول کھلادے۔میں ایک ٹھنٹھ ہو ں ،تو چاہے تو مجھ کو سر سبزوشاداب کردے۔میں ایک بے معنی وجود ہوں ،تو چاہے تو میری زندگی کو معنویت سے بھر دے۔میں جہنم کے کنارے کھڑاہوں تو چاہے تو مجھ کو جنت میں داخل کردے‘‘۔