خرابی کی جڑ
ہر آدمی حق کا نام لیتا ہے ،اس کے باوجود دنیا میں ہرطرف بگاڑکیوں ہے۔اس کی وجہ قرآن کے لفظوں میں الحاد (انحراف )ہے۔ یعنی بات کو صحیح رخ سے غلط رخ کی طرف موڑدینا۔
الحاد کی ایک صورت جو موجود زمانہ میں بہت زیادہ رائج ہے ،وہ ہے — انفرادی حکم کا رخ اجتماعیات کی طرف کردینا۔جس حکم کا خطاب آدمی کی اپنی ذات سے ہے اس کا مخاطب دوسروں کو بنا دینا۔مثلاً قرآن میں ہے کہ:وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّر(74:3-4) یعنی، اپنے رب کی بڑائی کر اور اپنے اخلاق کو پاک کر‘‘۔
اس آیت میں اگروَثِيَابَكَ فَطَهِّر کو وَثِيَابَ غیركَ فَطَهِّر(اور دوسروں کے اخلاق کو پاک کر )کے معنی میں لے لیا جائے تو سارا معاملہ الٹ جائے گا۔جو آیت ذاتی اصلاح کا سبق دے رہی ہے وہ صرف دوسروں کے خلاف اکھاڑپچھاڑ کے ہم معنی بن کر رہ جائے گی۔
اسی طرح تمام احکام کا حال ہے۔ہر حکم جوخداکی طرف سے دیا گیا ہے اس کا سب سے پہلا خطاب آدمی کی اپنی ذات سے ہے۔مگر موجودہ زمانہ کے انقلابی دینداروں نے تمام احکام کا رخ دوسروں کی طرف کررکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین ومذہب کے نام پر بے شمار ہنگاموں کے باوجود کوئی اصلاح نہیں ہوتی۔
ہر قسم کی اصلاح اورہر قسم کے بگاڑ کا خلاصہ دو لفظ میں یہ ہے :
1۔خدابڑاہے ،اس لیے میں بڑانہیں ہوں۔
2۔خدابڑاہے ،اس لیے تم بڑے نہیں ہو۔
’’پہلاجملہ’’اللہ اکبر ‘‘کے کلمہ کو صحیح رخ سے لینا ہے اوردوسراجملہ’’اللہ اکبر‘‘کے کلمہ کو غلط رخ سے اختیار کرنا ہے۔اگر آپ کہیں کہ’’خدا بڑاہے اس لیے میں بڑانہیں ہوں‘‘تو آپ کے اندراپنی ذات کے بارے میں ذمہ دار ی کا احساس جاگے گا۔آپ کے اندر سے گھمنڈ نکلے گا اورسنجیدگی اورذاتی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوگا۔آپ کے اندر تو اضع ابھر ے گی جو تمام بھلائیوں کی جڑہے۔
اس کے برعکس جب آپ کا نعرہ یہ ہوکہ ’’خدا بڑاہے اس لیے تم بڑے نہیں ہو‘‘تو اس سے گھمنڈ کی نفیسات پیدا ہوتی ہے اورتوڑ پھوڑ اوردوسروں کے خلاف اکھیڑپچھا ڑ کی سیاست ابھرتی ہے۔اصلاح کے نام پر ایسا فساد ظہور میں آتا ہے جوکسی حد پر رکنے والا نہ ہو۔