جھوٹی بڑائی
حضرت عمر فاروقؓبحیثیت خلیفہ مدینہ میں تقریر کر رہے ہیں ۔ایک شخص اٹھ کرکہتا ہے کہ خداکی قسم اگر ہم تمہارے اندر کوئی ٹیڑھ پائیں گے تو ہم تم کو تیر کی طرح سیدھا کر دیں گے:لَو فَعَلت ذَلِكَ قَوَّمْنَاكَ تَقْوِيمَ القِدْحِ(کنز العمال، حدیث نمبر 14197) بظاہر یہ نہایت سخت تنقید ہے اوربڑی گستاخی کی بات ہے مگر نہ عمر فاروق اس کو برامانتے اورنہ سارے مجمع سے کوئی ایک شخص اٹھ کر یہ کہتاکہ تم نے ایسا کیوں کہا۔اس طرح کے تنقیدی واقعات صحابہ کے دمیان روزانہ پیش آتے تھے۔صحابہ کے بعد تابعین اورتبع تابعین کے زمانہ میں بھی یہ صورت حال باقی رہی۔مگر کبھی کسی نے اس کو برا نہ مانا۔اگر کہا تو صرف یہ کہا کہ جوبات کہو تحقیق کے ساتھ کہو،نہ کہ بے تحقیق باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف رائے زنی کرنے لگو۔
اس کی وجہ کیا ہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگ انسانوں کی عظمت میں نہیں جیتے تھے بلکہ صرف ایک خدا کی عظمت میں جیتے تھے۔ان کے دل پر اس سے چوٹ نہیں لگتی تھی کہ کوئی شخص کسی انسان پر کیوں تنقید کرتا ہے۔کیوں کہ وہ بڑائی کا سارا حق صرف خدا کو دئے ہوئے تھے۔اورانسانوں پر تنقید کرنے سے خداکی بڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اس کے برعکس موجودہ زمانہ میں اگر کسی شخصیت پر تنقید کردیجیے تو خوا ہ وہ تنقید کتنی ہی علمی اورتحقیقی کیوں نہ ہو ،اس کے معتقدین فوراً برہم ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسانوں ہی کو اپنا بڑابنائے ہوئے ہیں پھر وہ کیسے گوارا کرسکتے ہیں کہ ان کی بڑائی کا مینا ر گرجائے۔لوگوں کا حال یہ ہے کہ نماز اوراذان میں وہ اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے )کہتے ہیں مگر یہ صرف الفاظ ہیں جن کو لوگ زبان سے ادا کرتے ہیں ورنہ حقیقتہً لوگ جس بڑائی میں جی رہے ہیں وہ انسان کی بڑائی ہے نہ کہ خدا کی بڑائی۔
لوگوں کو جاننا چاہیے کہ غیراللہ کی بڑائی میں جینے کا موقع صرف اس وقت تک ہے جب تک امتحان وآزمائش کی مدت ختم نہ ہو۔اس کے ختم ہوتے ہی اس کا موقع بھی ختم ہو جائے گا۔پھر جن لوگوں کی غذاانسان کی جھوٹی بڑائی ہو۔وہ اس وقت کس چیز کواپنی غذا بنائیں گے جبکہ تمام دوسری بڑائیاں ختم ہوجائیں گی اورخدا کی سچی بڑائی کے سوا کوئی بڑائی نہ ہوگی جس کو آدمی اپنی غذابنائے اورجس کے بل پر وہ جی سکے۔