امتحان
حضرت ابراہیم کو خواب میں دکھا یا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں ۔حضرت ابراہیم خواب کے مطابق بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔مگر جیسے ہی آپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی ،آواز آئی کہ بس تم نے خواب کو پوراکر دکھا یا۔اس کے بعد آپ کو خصوصی طور پر ایک مینڈھا فراہم کیا گیا اورآپ نے بیٹے کے بدلے اسی مینڈھے کو ذبح کیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ — اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قربانی مانگی جاتی ہے مگر قربانی لی نہیں جاتی۔ گلے پر چھری رکھی جاتی ہے مگر قبل اس کے کہ چھری آدمی کا گلا کاٹے ،چھری کو گلے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
اس دنیا میں ہر آدمی کا اصل امتحان نفسیاتی امتحان ہے نہ کہ جسمانی امتحان۔خدا انسان کی آمادگی کو دیکھتا ہے نہ کہ کر ڈالنے کو۔خدا کبھی کسی کو غیر ضروری مشقت میں نہیں ڈالتا۔مگر مشقت سے نجات اس کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو مشقت کے حوالے کرنے کا واقعی ثبوت دے دے۔
جو لوگ قربانی کے راستہ سے بھاگتے ہیں وہ صرف اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ خدائے رحمان ورحیم پر یقین نہیں رکھتے۔خدا تمام مہربانوںسے زیادہ مہربان ہے۔وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ شفیق ہے جتنا کوئی باپ اپنے عزیز بیٹے کے لیے شفیق ہوتا ہے۔ایسی حالت میں قربانی کے راستہ سے بھاگنا خدا کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار ہے۔حالاں کہ خدا جتنا لیتا ہے اس سے بہت زیادہ دیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے خدا کو صرف ایک بیٹا پیش کیا تھا اور خدا نے ان کو سارے عالم کی امامت دیدی۔
انسان کو چاہیے کہ وہ کسی تحفظ کے بغیر خدا کے راستہ پر چل پڑے۔وہ قربانی کے مواقع پر ہرگز اپنی طرف سے کوئی کمی نہ کرے۔اسی کے ساتھ وہ یقین رکھے کہ شفیق باپ سے بھی زیادہ مہربان اور طاقت ور خدا ہر آن اس کو دیکھ رہا ہے۔خدا آدمی کا امتحان ضرور لیتا ہے مگر قبل اس کے کہ آدمی ہلاکت میں پڑے وہ ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیتا ہے۔
کیسا عجیب ہے وہ بیٹا جو باپ کی پکار پریقین نہ کرے۔کیسا عجیب ہے وہ بندہ جو خدا کے بارے میں اپناا عتماد کھودے۔