آخرت کے بغیر
ارنسٹ ہیمنگوے(1899-1961)ایک امریکی فوجی تھا۔وہ 1961میں انتقال کر گیا۔وہ 1918میں اٹلی کی جنگ میں شریک تھا۔اس نے اپنی فوجی زندگی کے درمیان جو خطوط لکھے تھے وہ کتابی صورت میں شائع کردیے گئے ہیں ۔
اٹلی کی جنگ میں جب وہ زخمی ہوگیا تو اس نے اسپتال سے اپنے گھر والوں کے نام کچھ خطوط لکھے ان میں سے ایک خط میں حسب ذیل الفاظ درج تھے:
There are no heroes in this war. All the heroes are dead. And the real heroes are the parents. They suffer a thousand times more. And how much better to die in all the happy period of disillusioned youth, to go out in a blaze of light, than to have your body worn out and illusions shattered.
اس جنگ میںکوئی ہیرو نہیں ۔تما م ہیرو مرچکے ہیں اوراصل ہیرو ان کے والدین ہیں ، ایک ہزار گنا زیادہ مصیبت اٹھاتے ہیں ۔اوریہ کتنا اچھا ہے کہ جوانی کے پر کیف زمانہ میں آدمی کی موت آجائے۔ روشن شعلہ میں داخل ہونا اس سے بہتر ہے کہ تمہاراجسم بوڑھا اورفرسودہ ہوجائے اورسارے فریب منتشر ہوچکے ہوں(لائف، جون 1981)۔
ان الفاظ کے پیچھے زندگی کا کتنا مایوس تصور چھپا ہوا ہے۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کا آخری انجام یہ ہے کہ سو سال یااس سے کم مدت میں وہ بوڑھا اورناکارہ ہوکر مرجائے۔وہ سوچتا ہے کہ اگر زندگی بالآخر اسی کانام ہے تو اس سے بہتر ہے کہ جوانی کے امید بھرے دور میں آدمی ہیرو انہ اقدام کرکے اپنا خاتمہ کرلے۔
زندگی کو آخرت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بوڑھا ہوکر مرنا بھی بامعنی ہوجاتاہے اورروشن شعلہ میں داخل ہونا بھی۔مگر جب ایک شخص زندگی کو آخرت سے الگ کرکے دیکھتا ہے تو اس کو اپنے چاروں طرف مایوسی کے سوااورکچھ نظر نہیں آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آخرت کے تصور کو شامل نہ کیا جائے تو موجودہ زندگی اپنی تمام معنویت کھو دیتی ہے۔اس کے بعد اتنی ناقابل فہم ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنا بھی آدمی کو بے معنی نظر آنے لگے۔