سچائی کو پانے والا
معانی کی دنیا خدا کے جلووں کی دنیا ہے۔کون ہے جو خدا کے جلووں کو انسانی زبان میں بیان کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں الفاظ ختم ہوجاتے ہیں وہاں سے معانی کا آغاز ہوتا ہے۔جب ہم کسی معنی کو بیان کرتے ہیں توہم اس کو بیان نہیں کرتے بلکہ اس کو کچھ گھٹا دیتے ہیں ،اس کے اوپر ایک قسم کا لفظی پردہ ڈال دیتے ہیں ۔
کسی بامعنی حقیقت کو کوئی آدمی صرف اس کے الفاظ سے سمجھ نہیں سکتا۔ایک اندھا شخص کسی کے بتانے سے یہ نہیں جان سکتا کہ پھول کیا ہے خواہ اس نے پھول کے تعارف کے لیے انسانی زبان کے تمام الفاظ جمع کردیے ہوں۔اسی طرح ایک شخص جس نے معنوی حقیقتوں کو دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر نہ جگائی ہو وہ معنوی حقیقتوں سے باخبر نہیں ہوسکتا ،خواہ ڈکشنر ی کے تمام الفاظ اس کے سامنے دہرادئے جائیں ،خواہ قاموس المعانی کی تمام جلدوں کو اسے پڑھا دیا جائے۔
ہدایت ہر آدمی کی فطرت کی آواز ہے مگر ہدایت اسی کو ملتی ہے جو اپنے اندر اس کی سچی طلب رکھتا ہو۔جو اپنے اندر سچائی کی کھٹک لیے ہوئے ہو،سچائی جس کی ضرورت بن گئی ہو۔جو سچائی کو پانے کے لیے اتنا بے قرار ہوکہ وہ اسی کی یاد لے کر سوتا ہواوراسی کی یاد لے کر جاگتا ہو،جو آدمی اس طرح سچائی کا طالب بن جائے وہی سچائی کو پاتا ہے۔
ایسا شخص گویا ہدایت کا نصف راستہ طے کر چکا ہے۔وہ اپنے اندر چھپے ہوئے عہد اَلست کی خدائی آوازوں کو سن رہا ہے۔وہ اپنے اندر اس فطری صلاحیت کو بیدار کرچکا ہے جو معانی کی زبان کوسمجھتی ہے۔ایسا شخص غیر حقیقی دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے حقیقی دنیا کے اتنا قریب آجاتا ہے کہ وہ فرشتوں کی سرگوشیوں کو سننے لگتا ہے۔
پیغمبر اس تلاش حق کی راہ میں آدمی کا مدد گار ہے۔پیغمبر کے ذریعہ حقیقت کا علم ملنے سے پہلے یہ تمام تجربات آدمی کے اندر مبہم اورمجہول انداز میں ہوتے ہیں ۔اس کے بعد جب پیغمبر کی آواز اس کے اندر داخل ہوتی ہے تو وہ اس کی کتاب فطرت کی تفسیر بن جاتی ہے۔ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے غیر ملفوظ اشارات کو ملفوظ زبان میں پالیتا ہے — قرآن اور قرآن کو پڑھنے والا دونوں ایک دوسرے کا مثنیٰ بن جاتے ہیں ۔قرآن وہ بن جاتاہے اوروہ قرآن۔