موت کا سبق
ایک مجرم کو بتایا گیا کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرچکی ہے اورکل صبح اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔پھانسی اگرچہ کل کے دن ہونے والی تھی مگر آج ہی اس کا یہ حال ہواگویا اس کو پھانسی دی جاچکی ہو۔زندگی اس کے لیے بے قیمت ہوگئی۔اس کا ہنسنا اوربولنا ختم ہوگیا۔اس کے ہاتھ جو دوسروں کے خلاف اٹھتے تھے ،اب اس قابل نہ رہے کہ کسی کے خلاف اٹھیں۔اس کے پائوں جو ہر طرف دوڑنے کے لیے آزاد تھے ،اب ان میں یہ طاقت بھی نہ رہی کہ وہ کہیں بھاگنے کی کوشش کریں۔
موت بتاتی ہے کہ یہی معاملہ ہر ایک کا ہے۔ہر آدمی جو آج زندہ نظر آتا ہے ،کل کے دن اسے ’’پھانسی ‘‘کے تختہ پر لٹکنا ہے۔مگر ہر آدمی اس سے بے خبر ہے۔ہر ایک اپنے آج میں گم ہے ،کسی کو اپنے کل کا احساس نہیں ۔یہاں ہر آدمی ’’مجرم‘‘ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اپنے مجرم ہونے کو جانتے ہوں۔
آدمی زمین پر چلتا پھرتا ہے۔وہ دیکھتا اورسنتا ہے۔وہ اپنے مال اور اپنے ساتھیوں کے درمیان ہوتا ہے۔اس کے بعد ایک عجیب واقعہ پیش آتا ہے۔اس سے پوچھے بغیر اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔اس کے چلتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں ۔اس کی دیکھنے والی آنکھیں بے نور ہوجاتی ہیں ۔وہ اپنی ہر چیز سے جدا ہوکر قبر کی تنہائی میں چلا جاتا ہے۔
موت کا یہ واقعہ آدمی کی حقیقت کو بتا رہا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ آدمی اختیار سے بے اختیاری کی طرف جارہا ہے۔وہ اجالے سے اندھیرے کی طرف جارہا ہے۔وہ سب کچھ سے بے کچھ کی طرف جارہاہے۔موت سے پہلے وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے جہاں وہ اپنے ارادہ کا آپ مالک ہے۔موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں وہ کسی اور کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور ہوگا۔
آدمی اگر اس حقیقت کو یاد رکھے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔کسی پر قابو پاکر اسے ستانااس کو مضحکہ خیز معلوم ہو۔کیونکہ جو شخص خود کل دوسرے کے قابو میں جانے والا ہے وہ کسی کو ستاکر کیاپائے گا۔اپنے کو بڑاسمجھنے پر اسے شرم آئے گی۔کیونکہ جو بڑائی بالآخر چھن جانے والی ہو اس کی کیا حقیقت۔