جب پردہ اٹھے گا
امریکی صدر رونالڈریگن(1911-2004) 30مارچ 1981کوپر اعتماد چہرہ کے ساتھ اپنے صدارتی محل (وھائٹ ہائوس) سے نکلے۔کاروں کا قافلہ ان کو لے کرواشنگٹن کے ہلٹن ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔پروگرام کے مطابق انھوں نے ہوٹل کے شان دارہال میں ایک تقریر کی۔تحسین و آفر یں کی فضامیں ان کی تقریر ختم ہوئی۔وہ آدمیوں کے ہجوم میں ہنستے ہوئے چہرہ کے ساتھ باہر آئے۔وہ اپنی بلیٹ پر وف لیموزین (کار) سے صرف چند قدم کے فاصلہ پر تھے کہ اچانک باہر کھڑے ہوئے مجمع کی طرف سے گولیوں کی آواز یں آنے لگیں۔ایک نوجوان جان ہنکلے نے دو سکنڈکے اندر چھ فائر کیے۔ایک گولی مسٹرریگن کے سینہ پر لگی۔وہ خون میں لت پت ہوگئے اورفوراًاسپتال پہنچائے گئے۔اچانک گولی لگنے کے بعد صدر امریکاکا جوحال ہوا وہ اے پی کا رپورٹر اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے :
Mr Reagan appeared stunned. The smile faded from his lips.
مسٹرریگن جیسے سن ہوگئے۔مسکراہٹ ان کے ہونٹوں سے غائب ہوگی (ٹائمس آف انڈیا، 31مارچ 1981)۔ یہ واقعہ اس صورت حال کی ایک تصویر ہے جو موت کے ’’حملہ ‘‘کے وقت اچانک آدمی پر طاری ہوگی۔
آدمی موجودہ دنیا میں اپنے کو آزاد سمجھ رہا ہے۔وہ نڈرہوکر جو چاہے بولتا ہے اورجو چاہے کرتا ہے۔اگر کسی کو کچھ مال ہاتھ آگیا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میرا مستقبل محفوظ ہے۔کسی کو کوئی اقتدار حاصل ہے تو وہ اپنے اقتدار کو اس طرح استعمال کرتا ہے جیسے اس کا اقتدار کبھی چھننے والانہیں ۔ہر آدمی پُر اعتماد چہرہ لیے ہوئے ہے۔ ہر آدمی ہنستے ہوئے اپنی ’’لیموزین ‘‘کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس کے بعد اچانک پردہ اٹھتا ہے۔ موت کا فرشتہ اس کو موجودہ دنیا سے نکال کر ا گلی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔
یہ ہر آدمی کی زندگی کا ایک انتہائی بھیانک لمحہ ہے۔جب یہ لمحہ آتا ہے تو آدمی اپنے اندازہ کے بالکل خلاف صورت حال کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوجاتا ہے۔اچانک اس کو محسوس ہوتاہے وہ سب کچھ محض دھوکا تھا جس کو اس نے سب سے بڑی حقیقت سمجھ لیا تھا۔میں نے اپنے کو آزاد سمجھا تھا مگر میں تو بالکل بے اختیار نکلا میں اپنے کو مال و جائیداد والا پارہا تھا مگر میں تو بالکل خالی ہاتھ تھا۔میں سمجھتا تھاکہ میرے ساتھ بہت سے لوگ ہیں مگر یہاں تو میراکوئی ایک بھی نہیں ۔
آہ وہ انسان جو اسی بات کو نہیں جانتا جس کواسے سب سے زیادہ جاننا چاہیے۔