حق کو پانا
انسان کا ذہن حق کا آئینہ ہے۔آئینہ کے سامنے کو ئی چیز لائی جائے تو وہ اس کی ہو بہو صورت اپنی سطح پر اتار لیتا ہے۔وہ کبھی اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔ٹھیک یہی حال آدمی کے ذہن کا ہے۔اس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ فوراً اس کو پہچان لیتا ہے۔وہ پوری طرح اسے پالیتا ہے۔وہ نہ دیکھنے میں غلطی کرتا اور نہ پہچاننے میں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ آیات بینات (کھلے دلائل ) کے ذریعہ حق سامنے آتا ہے ،اس کے باوجود بے شمار لوگ اس کو قبول نہیں کرتے۔اس کی وجہ صرف ایک ہے۔اوروہ نفسیاتی اٹکائو ہے۔ایسے افراد کا گہر اتجزیہ کیجئے تو ان کے انکارکی وجہ کوئی حقیقی دلیل نہیں ہوگی۔بلکہ کوئی نہ کوئی دوسری غیر متعلق چیز ہوگی جس کے ساتھ آدمی اٹکا ہوا ہو گا۔
سچائی کوپانے کی ایک ہی لازمی شرط ہے۔وہ یہ کہ حق واضح ہونے کے بعد آدمی کسی بھی اورچیز کو اپنے لیے رکاوٹ نہ بننے د۔مگر آدمی اکثر حالات میں ایسا نہیں کرپاتا۔وہ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کو اپنے لیے رکاوٹ بنا لیتا ہے۔
کوئی کسی شخصیت پر اٹک کر رہ جاتاہے۔کوئی کسی مفاد پر ،کوئی کسی اورچیز پر۔ یہی وہ کمزوری ہے جس نے ہردورمیں بے شمار لوگوں کو سچائی اختیار کرنے سے محروم کردیا۔ وہ پانے کے باوجود اس کو پانے میں ناکام رہے۔
ابو جہل کے لیے اس کا قیادتی مفادقبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔طائف کے لوگوں نے حق کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ اس کا اعلان ایک ایسے شخص کی زبان سے ہورہا تھا جو بظاہر انہیں وقت کی بڑی بڑی شخصیتوں سے کم تر دکھائی دیتا تھا۔یہود نے آپ کا انکار اس لیے کیاکہ آپ کو پیغمبر ماننے سے ان کا احساس برتری ٹوٹتا تھا۔شہنشاہ ہر قل نے اس لیے اس کا اقرار نہیں کیا کہ اس نے محسوس کیا کہ اگر میں ایساکروں تو میں اپنی قوم سے کٹ جائوں گا۔ہر ایک دلیل سے مفتوح ہوچکا تھا۔مگر ہر ایک کسی نہ کسی چیز میں اٹک کر اس کو قبول کرنے سے بازرہا۔
اس دنیا میں حق صرف اس شخص کو ملتا ہے جوکسی اٹکنے والی چیز پر نہ اٹکے۔سچائی کا دلیل سے واضح ہوجانا ہی اس کے لیے کافی ہوکہ وہ اس کو ہمہ تن قبول کرلے۔