پلاسٹک کے پھل اورپھول
آجکل پلاسٹک کے پھول اورپھل بنتے ہیں ۔دیکھنے میں بالکل پھول اورپھل کی طرح معلوم ہوںگے لیکن سونگھئے تو اس میں پھول کی خوشبونہیں اور منہ میں ڈالیے تو اس میں پھل کا مزہ نہیں ۔اسی طرح موجودہ زمانہ میںدین داری کی عجیب وغریب قسم وجود میں آئی ہے۔بظاہر اس میں دھوم کی حدتک دین دکھائی دے گا۔لیکن قریب سے تجربہ کیجئے تو وہی چیز موجودنہ ہوگی جو دین کا اصل خلاصہ ہے :اللہ کا ڈر اورانسان کادرد — پلاسٹک کے دور میں شاید دین داری بھی پلاسٹک کی دین داری بن کررہ گئی ہے۔
لوگ دین دار ہیں مگر کوئی شخص اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔کوئی شخص اللہ کی خاطر اپنی اکڑختم کرنا نہیں جانتا۔ذاتی فائدہ کی خاطر بے شمار لوگ اپنے اختلاف اورشکایت کو بھول کر دوسروں سے جڑے ہوئے ہیں مگر خداکی زمین پرکوئی نہیں جو خدا کے لیے اپنے اختلاف وشکایت کو بھول کردوسروں سے جُڑ جائے۔
دین اصلاً اس کانام ہے کہ آدمی اس حقیقت کو پاجائے کہ اس کا ئنات کا ایک خدا ہے۔اسی نے تمام چیزوں کو بنایا ہے۔وہ موت کے بعد تمام انسانوں کو جمع کرکے ان سے حساب لے گااورپھر ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق یاتو ابدی جنت میں داخل کرے گایاابدی جہنم میں۔یہ حقیقت اتنی سنگین ہے کہ اگر وہ فی الواقع کسی کے دل ودماغ میں اتر جائے تو اس کی زندگی کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔وہ ان تمام چیزوں کے بارے میں انتہائی حساس ہوجاتا ہے جو آدمی کو جہنم کی آگ میں پہنچانے والی ہیں اوران تمام چیزوں کا انتہائی مشتاق ہوجاتا ہے جو آدمی کو جنت کے باغوں کا مستحق بنانے والی ہیں ۔وہ ہر چیز سے زیادہ اللہ سے ڈرنے لگتا ہے اورہر چیز سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔وہ اپنی انفرادی ہستی کو خدا کی عظیم ترہستی میں کھودیتا ہے۔
خدا اورآخرت کے بارے میں اس بڑھی ہوئی حساسیت اس کو بندوں کے بارے میں بھی انتہائی محتاط اور ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ایک انسان سے بد خواہی کرتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنے آپ کو جہنم کے گڑھے میں گرارہا ہے۔بندوں کے ساتھ سرکشی کو سلوک کرتے ہوئے وہ اس طرح ڈرنے لگتا ہے جیسے کہ ہر آدمی اپنے ساتھ جہنم کے فرشتوں کی فوج لیے ہوئے ہے۔اپنے صاحب معاملہ افراد سے بے انصافی کرنا اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس نے اپنے آپ کو جہنم کے گہرے غار میں دھکیل دیا ہے۔اب کوئی انسان اس کی نظر میں محض ایک انسان نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان ایک ایسا وجود ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا اپنے تمام فرشتوں کے ساتھ کھڑاہواہو۔