ناکام موت
مسٹر بی ڈی کھوبر اگاڑ(پیدائش 1925) 9 اپریل 1984کو دہلی کے پنت اسپتال میں مرگئے۔وہ ایک ہریجن لیڈرتھے۔انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ اونچی ذات والوں کے امتیازی سلوک کودیکھا۔ان کے اندر اس کے خلاف آگ بھڑک اٹھی۔جب انہیں معلوم ہواکہ اس امتیاز کی بنیا دخود اس ہندستانی مذہب میں ہے جس سے وہ اب تک اپنے کو منسوب سمجھے ہوئے تھے تو انھوں نے مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ڈاکٹرا مبیڈ کر (1891-1956) اور لاکھوں دوسرے ہریجنوں کے ساتھ وہ بدھزم میں داخل ہوگئے۔مگر اس کے باوجود ہریجنوںکے ساتھ سماجی امتیاز ختم نہیں ہوا۔
اب کھوبر اگاڑاوران کے ساتھیوں نے دوسری تدبیر کی۔انھوں نے ری پبلکن پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔انھوں نے چاہاکہ جو مسئلہ تبدیلیٔ مذہب سے حل نہیں ہوا،اس کو تبدیلی حکومت کے ذریعہ حل کیا جائے۔مگر یہ اقدام بھی کامیاب نہیں ہوا۔خود ری پبلکن پارٹی میں اندرونی اختلاف پیداہوگئے۔وہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مایوس کھوبر اگاڑ59سال کی عمر میں اس دنیا سے چلے گئے۔
مسٹر کھوبراگاڑاپنی زندگی کے مسئلہ کا حل تلاش کرتے رہے جو’’59سال‘‘میں ختم ہوجانے والی تھی۔ آج اگر کوئی شخص ان سے پوچھے تو یقیناً وہ کہیں گے — افسوس کہ میں وقتی زندگی کے مسائل میں الجھا رہا اوراپنی اس زندگی کے لیے کچھ نہیں کیا جس سے ابدی سابقہ پیش آنے والا تھا۔
لوگ آج کے مسائل میں اتنا مشغول ہیں کہ انہیں کل کے مسائل پر سوچنے کی فرصت نہیں ۔وہ حال کے اندر اتنا گم ہیں کہ ان کو یہ پروانہیں کہ وہ مستقبل کے بارےمیں سوچیں۔لوگ اسی طرح غفلت میں پڑے رہتے ہیں ۔یہاں تک کہ ان کی موت آجاتی ہے۔ انسانوں میں الجھا ہواآدمی اچانک اپنے آپ کو خداکے سامنے کھڑاہواپاتاہے۔دنیا کے مسائل کو سب کچھ سمجھنے والا آدمی وہاں پہنچادیاجاتاہے جہاں صرف آخرت کے مسائل کسی آدمی کے لیے سب کچھ ہوں گے۔ظواہرکو اہمیت دینے والا آدمی اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتاہے جہاں حقیقت کے سوا کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ۔
انسان کو دیکھیے تو وہ کتنا حیرت انگیز وجود معلوم ہوتاہے۔انسان کی صلاحیتیں اتنی عجیب ہیں کہ ساری کائنات میں اس سے زیادہ عجیب کوئی چیز نہیں ۔مگر کیسا درد ناک انجام انسان کے حصہ میں آیاہے۔کیسی قیمتی زندگی کیسے بے قیمت انجام پر ختم ہوجاتی ہے۔مگر کوئی نہیں جو اس کو سوچے ،کوئی نہیں جو زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے فکر مند ہو۔