الفا ظ کم ہوجاتے ہیں
مسٹر لزلی برائون شمالی انگلستان کے ایک ٹرک ڈائیور ہیں ۔وہ اولاد سے محروم تھے۔ ان کی بیوی کے جسمانی نظام میں بعض حیاتیاتی فرق کی وجہ سے دونوں کا مادۂ حیات رحم مادر میں یک جا نہیں ہوتا تھا۔وہ اولاد کی طرف سے مایوس ہوچکے تھے کہ عین وقت پر سائنس نے ان کی مدد کی۔لندن کے ڈاکٹر پیٹرک اسٹپٹو جوبر سہا برس سے اس میدان میں تجربہ کررہے تھے۔ انھوں نے اپنی لیبارٹری میں لزلی برائون کا مادۂ تولید(sperm ) نکالا اورمسز برائون کے جسم سے ایک بیضہ لیا۔دونوں کو انھوں نے ایک خصوصی قسم کے ٹیسٹ ٹیوب میں رکھا۔قدرتی قانون کے تحت وہ دونوں مل کر زرخیز ہوگئے۔چار روز کے بعد ڈاکٹر نے اس کو مصنوعی طور پر رحم مادر میں پہنچا دیا۔اب رحم مادر میں اس ’’بچہ ‘‘کی پرورش ہونے لگی۔ تجربہ کامیاب رہا۔جولائی1978میں تاریخ کا پہلا ’’test tube baby‘‘وجود میں آگیا۔اس پورے عمل کی تصویر لی جاتی رہی اورپیدائش کے بعد اس کو مکمل طورپر ٹیلی وژن پر دکھا یاگیا۔
ٹیوب بے بی (لوئس برائون ) کے باپ سے اس پورے واقعہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا ’’بیوٹی فل ‘‘یعنی بے حد حسین۔اس ایک لفظ کے سوا وہ کچھ اور نہ کہہ سکا۔
غم کی گھٹنا خوشی سے زیادہ بڑی گھٹنا ہوتی ہے۔انڈین نیوی کے ایک افسر کی اہلیہ مسز اوما چوپڑہ کو 26اگست 1978 کو جب معلوم ہواکہ ان کے دونوں بچے گیتا (17سال) اور سنجے(15سال) کو نئی دہلی میں وحشیانہ طور پر کسی نے قتل کردیا ہے تو اس کے بعد ان کا یہ حال ہواکہ سات گھنٹے تک وہ ایک لفظ نہ بول سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تاثرجتنا شدید ہو الفاظ اتنا ہی کم ہوجاتے ہیں ۔بے حد خوشی ہو تب بھی آدمی زیادہ بول نہیں پاتا اوربے حد غم ہوتب بھی زیادہ بولنا آدمی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔جو لوگ دین وملت کے’’غم ‘‘ میں ہر روز الفاظ کے دریا بہاتے رہتے ہیں وہ صرف اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ دین وملت کے غم میں وہ سب سے پیچھے ہیں ۔جو شخص درد وغم میں مبتلا ہو اس کو تو چپ لگ جاتی ہے نہ یہ کہ وہ لفظی اکھاڑوں میں لسانی پہلوانی کے کرتب دکھانے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے خدا کو نہ اس کے منعم کے روپ میں پایا ہے اورنہ منتقم کے روپ میں۔اگر وہ دونوں میں سے کسی روپ میں بھی خدا کوپالیتے تویہ صورت باقی نہ رہتی کہ ہر آدمی ایسے الفاظ کا بھنڈار بنا ہوا ہے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتے۔