کم سمجھنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک غیر امیر خاندان میںپیداہوئے۔آپ ابھی ماں کے پیٹ میں تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔پیدائش کے جلد ہی بعد آپ کی والدہ بھی اس دنیا سے چلی گئیں۔آپ کو حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔حلیمہ کے شوہر کو ابوکبشہ کہا جاتا تھا۔یہ ایک نہایت غریب خاندان تھاجو محنت مزودری پر گزرکرتاتھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ایک یتیم بچہ کی حیثیت سے پر ورش پائی۔وہ قلیل معاوضہ پر مکہ والوں کی بکریاں چراتے تھے۔آپ کے ساتھ کوئی عظیم ماضی شامل نہ تھا۔ چنانچہ مکہ والوں کی نظر میں آپ کی تصویر ایک حقیر تصویر بن گئی۔آپ کا شمار مکہ کے بڑے لوگوں میں نہ تھا۔بلکہ ان لوگوں میں تھاجو لوگوں کے نزدیک قابل تذکرہ نہیں ہوتے۔
اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر جب آپ پر وحی آئی اورآپ نے مکہ میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیاتو لوگوں کو یہ ایک مذاق کی بات معلوم ہوئی۔مکہ والوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جو کل تک ایک معمولی آدمی تھا وہ آج خداکا رسول کیسے بن گیا۔انھوں نے حقارت کے ساتھ کہا کہ یہ ابوکبشہ کے لڑکے کو دیکھو ،وہ کہتا ہے کہ اس کو آسمان سے وحی آتی ہے:هَذَا ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ يُكَلَّمُ مِنَ السَّمَاءِ(نور الیقین ،جلد1، صفحہ 10)۔
یہی چیز ہر دور میں پیغمبروں کے ہم زمانہ لوگوں کے لیے پیغمبروں کے انکار کا سبب بن گئی۔خدا نے کبھی بادشاہوںیاوقت کی عظیم شخصیتوں کوپیغمبر نہیں بنایا۔بلکہ غیر معروف لوگوں میں سے ایک شخص کو پیغمبری کے لیے چن لیا۔اب جن لوگوں نے اس شخص کو پیغمبری سے پہلے کم سمجھاتھا وہ پیغمبر ی کے بعد بھی اس کو کم سمجھتے رہے۔خدانے انہیں بڑاکردیا مگرجو لوگ انہیں پہلے چھوٹا دیکھ چکے تھے ان کے لیے ممکن نہ ہو اکہ وہ ان کی بڑائی کو پہچانیں اوران کو اپنا بڑابنائیں۔
یہ سب سے بڑانفسیاتی فتنہ ہے جو ہر دور میں لوگوں کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔موجودہ دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ حقیقت کو ’’غیب ‘‘کی سطح پر پالے۔وہ سچائی کو اس کے مجرد روپ میں پہچان سکے۔لوگ عظمتوں کی سطح پر اعتراف کا ثبوت دے رہے ہیں ۔حالاں کہ اعتراف کا ثبوت وہاں دینا پڑتا ہے جہاں بظاہر دیکھنے والوں کو عظمت دکھائی نہیں دیتی۔لوگ رونقوں کے مقام پر خدا پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ خدا اکثر وہاں ہوتا ہے جہاں کسی قسم کی رونق نظر نہیں آتی۔