حق کی پہچان
شری رام رتن کپلا دہلی میں ریفریجر یٹرکے تاجر ہیں اورشری موتی رام صراف دہلی میں سو نے چاندی کا کاروبار کرتے ہیں ۔دونوں میں بہت دوستی ہے۔اکثر صبح کو دونوں ایک ساتھ ٹہلنے کے لیے نکلتے ہیں اورایک ساتھ واپس آتے ہیں ۔
ایک روز دونوں ایک مقام پر ٹہل رہے تھے۔شری رام رتن کپلا کو ایک جگہ راستے کے کنارے ایک چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی۔انھوں نے اس کو شیشہ کا ٹکڑا سمجھا اور تفریح کے طور پر ہاتھ میں اٹھالیا۔
ٹہلنے کے بعد دونوں گھر واپس آئے شری رام رتن کپلا نے واش بیسن پر ہاتھ دھو یا اور مذکورہ ٹکڑسے کوبے خیالی کے ساتھ ایک کنارے ڈال دیا۔
اس کے بعد شری موتی رام صراف اپنا ہاتھ دھونے کے لیے واش بیسن پر آئے، ان کی نگاہ مذکورہ ٹکڑے پر پڑی۔اس کی چمک دیکھتے ہی فوراً انھوں نےپہچان لیا کہ یہ ہیرا ہے۔انھوں نے اس کو اٹھالیا اوراس کو دھو کر شری رام رتن کپلا کے پاس لے گئے۔جب انھوں نے بتایا کہ یہ ہیرا ہے تو شری رام رتن کپلا کو بہت تعجب ہوا۔انھوں نے کہا کہ میں نے تو اسے معمولی شیشہ کا ٹکڑا سمجھا تھا۔خیریت ہوئی کہ میں نے اسے پھینک نہیں دیا۔
شری رام رتن کپلا ہیرے سے بے خبر نہ تھے۔ان کے گھر میں ہیرے کا نیکلس موجودہ تھا جس کو وہ نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی مخصوص الماری میں رکھے ہوئے تھے۔مگر راستہ میں پڑے ہوئے ہیرے کو وہ پہچان نہ سکے۔
شری موتی رام صراف بھی ہیرے سے واقف تھے اورشری رام رتن کپلا بھی۔فرق یہ ہے کہ شری موتی رام جوہر ی تھے۔وہ ہیرے کو اس کے جوہر کی بنیاد پر پہچان سکتے تھے خواہ وہ کہیں بھی ہو۔مگر شری رام رتن کپلا صرف اس ہیرے سے واقف تھے جو ان کے معلوم نیکلس میں لگا ہواہو۔معلوم نیکلس کے باہر کسی ہیرے کے ٹکڑے کو پہچاننا انہیں نہیں آتا تھا۔
وہ شخص جوہری نہیں جوہیرے کو صرف اس وقت پہچانے جب کہ وہ اس کے اپنے ہار میں لگا ہوا ہو۔جوہری وہ ہے جو ہیرے کو اپنے ہار میں بھی پہچانے اوردوسرے کے ہا ر میں بھی۔اسی طرح حق شناس وہ ہے جو حق کو ہر حال میں پہچان لے ،خواہ وہ اس کے اپنے حلقہ کے اندر ہو یا اس کے اپنے حلقہ کے باہر۔