تخلیق کی حکمت
ہندستان نے 1984میں روس کے تعاون سے اپنے دو آدمی خلا میں بھیجے۔ان کے نام ہیں :مسٹر رویش ملہوتر ا(پیدائش 1943)اورمسٹرراکیش شرما (پیدائش 1949)۔ان دونوں ہوا بازوں نے 1983میں دس مہینے روس کے خلائی سنٹر (Star City)میں گزارے۔دس مہینہ کی ٹریننگ میں ان کو جو چیزیں سکھائی گئیں ان میں سے ایک روسی زبان بھی تھی۔
بنگلور کی ایک پریس کانفرس (ہندستان ٹائمس، 24جولائی 1983)میں ان خلابازوں نے خلا کے بارے میں بعض دلچسپ چیزیں بتائیں۔انھوں نے بتایا کہ خلائی پرواز کے دوران آدمی تقریباً چھ سنٹی میٹر لمبا ہوجاتا ہے۔مگر اس کی اصل لمبائی اس وقت واپس آجاتی ہے جب کہ وہ دوبارہ زمین پر اترتا ہے۔لمبائی کا یہ فرق جسم کے اوپر فضا کے دبائو کی وجہ سے ہوتاہے :
One would gain about six centimetres in height during a space flight but would get back to one's normal height soon after returning to earth with the atmospheric pressure acting on the vertebrate.
خلامیں انسانی جسم کا لمبا ہوجانا بے وزنی کی وجہ سے ہوتا ہے۔وزن یا بے وزنی دونوں قوت کشش کے اثر سے پیدا ہوتے ہیں ۔ہماری زمین بے حد صحیح اندازہ کے مطابق بنائی گئی ہے۔اس لیے یہاں ہر آدمی کا قدنہایت متناسب ہوتاہے ،نہ چھوٹا اورنہ بڑا۔زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کے مقابلہ میں نصف ہوجائے تو اس کی کشش گھٹ جائے گئی۔اس کے نتیجہ میں انسان غیر متناسب طورپر لمبے قد کے ہونے لگیں گے۔ موجودہ معتدل قد کے انسانوں کے بجائے ہر طرف لمبے لمبے انسان دکھائی دیں گے۔ ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں موجودہ معتدل قد کے انسانوں کے بجائے ہر طرف اونٹ جیسے انسان کھڑے ہوئے نظر آتے ہوں۔
اس کے برعکس اگر ایسا ہوکہ زمین کی جسامت موجودہ جسامت کے مقابلہ میں دونا ہوجائے تو اس کی قوت کشش بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جسم کا بڑھنا رک جائے گا۔شیرکی جسامت گھٹ کر بلی جیسی ہوجائے گی اورانسان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنے موجودہ خوب صورت قد کو کھودے گااورزمین ان چھوٹے چھوٹے انسانوں کی بستی بن جائے گئی جن کو ہم بوناکہہ کر مسکراتے ہیں ۔
تخلیق خداوندی کی یہی وہ حکمت ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے :
وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (13:8)۔یعنی،او ر ہر چیز اس کے یہاں ایک انداز پر ہے۔