خد اسے نسبت
ایک بزرگ فجر کی نماز کے وقت اپنے گھر سے نکلے اورتیزی سے مسجد کے لیے روانہ ہوگئے مگر جب وہ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو ان کے قدموں کی رفتار سست ہوگئی۔اس وقت اگرچہ پہلی صف میں کافی جگہ تھی۔مگر وہ پیچھے کی صف میں رک گئے اورمسجد کے ایک کنارے بیٹھ کر جماعت کا انتطار کرنے لگے۔نماز کے بعد ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت، یہ کیا بات ہے کہ آپ مسجد کی طرف تیزی سے روانہ ہوئے مگر جب مسجد کے اندر پہنچے تو بڑھ کر اگلی صف میں جگہ لینے کے بجائے پچھلی صف میں ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔
بزرگ نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جب میں گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلا تو مجھ کو ایسا لگا کہ میں ایک ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں خداکی رحمت ومغفرت تقسیم ہورہی ہے۔اس وقت شوق ہواکہ میں لپک کر جلد سے وہاں پہنچوں۔مگر جب اندر داخل ہو اتو خدا کی عظمت کے مقابلہ میں اپنے عجز کا احساس مجھ پر غالب آگیا اورمیرے قدموں کی رفتار اچانک سست پڑگئی۔
’’آپ سست قدموں سے بھی تو اگلی صف میں جاسکتے تھے ‘‘آدمی نے دوبارہ پوچھا۔بزرگ نے کہا کہ تمہارایہ کہنا صحیح ہے۔مگر اس وقت مجھ پر یہ احساس طاری ہواکہ خداکی رحمت ومغفرت کا خزانہ تو ختم ہونے والا نہیں ۔اگر میں پیچھے بیٹھ جائوں تب بھی اس کی تقسیم کا سلسلہ ضرور یہاں تک پہنچ جائے گا۔
اس کے بعد بزرگ نے کہا کہ بندے کی نجات کا دار ومدار اس پر ہے کہ وہ خداکی صفات کا ادراک کرے۔بندے اورخداکے درمیان اس کی صفات ہی کے ذریعہ اتصال قائم ہوتا ہے۔جب کوئی شخص خدا کی صفتوں میں سے کسی صفت کا ادراک کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو خدا کی زد میں لاتا ہے۔جس طرح سورج کسی کو اس وقت روشن کرتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو اس کی کرنوں کی زد میں لائے۔اسی طرح ایک بندہ اس وقت اپنے رب کی زد میں آتا ہے جب کہ وہ خدا کی صفات کی معرفت حاصل کرے۔
بزرگ جب مسجد کی طرف جارہے تھے تو انھوں نے خدا کی حیثیت دریافت کی کہ خدا دینے والا ہے۔اس کے سوا کوئی دینے والا نہیں ۔جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو انھوں نے خدا کے بڑے ہونے کو پہچانا اوراس کے مقابلہ میں اپنے عجز کو دریافت کیا۔پہلے مرحلہ میں انھوں نے معطی ہونے کی حیثیت سے خدا سے نسبت قائم کی اوردوسرے مرحلہ میں خدا کے علی وکبیر ہونے کی حیثیت سے۔