حق کی پکار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت حق کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ نے مکہ کے باشندوں کو صفا پہاڑی کے پاس جمع کیا اورفرمایا کہ اے لوگو،جس طرح تم سوتے ہواسی طرح تم مروگے۔اورجس طرح تم جاگتے ہواسی طرح تم دوبارہ اٹھائے جائو گے۔اس کے بعد یاتو ابدی جنت ہے یاابدی جہنم ۔یہ سن کر ابو لہب نے کہا ،تمہارابراہو،کیاتم نے ہم کو اسی لیے بلایاتھا:تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر208)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ کے سردار بن کر مدینہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی تقریر فرمائی۔اس وقت بھی آپ کے پاس کہنے کی جو سب سے بڑی بات تھی وہ یہ تھی کہ اے لوگو! اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچاو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو:اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1417)۔
ہمارامقصد اسی پیغمبر انہ دعوت کو زندہ کرنا ہے۔لوگ مسائل زندگی کے لیے اٹھتے ہیں ۔ہم مسائل موت کے لیے اٹھے ہیں ۔کیاکوئی ہے جو اس مشن میں ہمارا ساتھ دے۔ لوگوں کو جنگ اورفساد کے شعلے دکھائی دیتے ہیں ۔کیا کوئی ہے جس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے دکھائی دیتے ہوںتاکہ وہ ہماراساتھ دے کر دنیا والوں کو جہنم کے شعلوں سے ڈرائے۔
لوگوں کو شہروں کی رونقیں دکھائی دیتی ہیں ۔ہم ان انسانوں کی تلاش میںنکلے ہیں جن کو قبرستان کے ویرانے دکھائی دیں۔ایسے انسانوں سے دنیا پٹی ،ہوئی ہے جن کو یہ محرومی بیتاب کیے ہوئے ہے کہ ان کو کسی ادارہ میں داخلہ نہیں ملا۔ہم کو وہ انسان درکار ہیں جن کو یہ غم بدحواس کردے کہ کہیں وہ جنت کے داخلہ سے محروم نہ ہو جائیں۔ لوگ دنیا کی بربادی کا ماتم کررہے ہیں ۔ہم ان انسانوں کو ڈھونڈرہے ہیں ۔جو آخرت کی بربادی کے اندیشے میں دیوانے ہوچکے ہوں۔
خداکی دنیا میں آج سب کچھ ہورہا ہے۔مگروہی ایک کام نہیں ہورہا ہے جو خداکو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔یعنی آنے والے ہولناک دن سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔اگر انسان اس پکار کے لیے نہ اٹھیں تو اسرافیل کا صوراسے اٹھائے گا۔مگر آہ،وہ وقت جاگنے کا نہیں ہوگا۔وہ ہلاکت کا اعلان ہوگا نہ کہ آگاہی کا الارم۔