خدا کی دنیا

جب آپ اپنے کمرہ میں ہوں تو آپ اس کی چھت کو ناپ کر معلوم کرسکتے ہیں  کہ اس کی لمبائی کتنی ہے اورچوڑائی کتنی۔مگر جب آپ کھلے میدان میں آسمان کے نیچے ہوتے ہیں  تو معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی چھت کی لمبائی اورچوڑائی کو ناپنے کے لیے آپ کے تمام پیمانے ناکافی ہیں ۔یہی حال خدا کی پوری کائنات کا ہے۔ ایک بیج جس طرح بڑھ کر درخت کی ایک دنیا بناتا ہے اس کو کون بیان کرسکتا ہے۔سورج کی روشنی ،ہوائوں کا نظام ، چڑیوں کے نغمے ،پانی کے بہتے ہوئے چشمے اوراسی طرح کی بے شمار چیزیں جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں  ان کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔

سچائی اس سے زیادہ لطیف ہے کہ اس کو انسانی لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں زبان گنگ ہوجاتی ہے وہاںسے حقائق شروع ہوتے ہیں ۔جہاں الفاظ ساتھ نہیں  دیتے وہاں سے معانی کا آغاز ہوتا ہے۔خداچپ کی زبان میں بول رہاہے اورہم اس کو شور کی زبان میں سننا چاہتے ہیں ۔ ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ ہم خدا کی آوازوں کو سن سکیں۔اس دنیاکی سب سے قیمتی باتیں وہ ہیں  جو چپ کے بول میں نشر ہورہی ہیں  مگر جو لوگ صرف شوروغل کی بولیاں سننا جانتے ہوں وہ ان قیمتی باتوں سے اسی طرح ناآشنا رہتے ہیں  جس طرح ایک بہرا شخص کسی عمدہ موسیقی سے۔

خدا کی دنیا بے حدحسین ہے۔اس کے حسن کو لفظوں میں بیان نہیں  کیا جاسکتا۔آدمی جب اس دنیا کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ خدا کی اس ابدی دنیا کا باشندہ بن جائے۔وہ ہوائوں میں شامل ہوجائے وہ درختوں کی سرسبزیوں میں جا بسے۔وہ آسمان کی بلندیوں میں کھوجائے۔مگر انسان کی محدود یتیں اس کی اس خواہش کی راہ میں حائل ہیں ۔وہ اپنی محبوب دنیا کو دیکھتا ہے مگر اس میں شامل نہیں  ہوپاتا۔شاید جنت اسی کانام ہے کہ آدمی کو اس کی محدود یتوں سے آزاد کردیا جائے تاکہ وہ خدا کی حسین دنیا میں ابدی طورپر داخل ہوجائے۔

انسان نے جو تمدنی دنیا بنائی ہے وہ خدا کی دنیا سے کس قدر مختلف ہے۔انسان کی بنائی ہوئی سواریاں شور اوردھواں پیدا کرتی ہیں  مگر خدا کی دنیا میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اورنہ کہیں  شور ہوتا ہے اورنہ دھواں۔انسان انسان کے درمیان اس طرح رہتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں  ،مگر خدا کی دنیا میں ہوا اس طرح گزرتی ہے کہ وہ کسی سے نہیں  ٹکراتی۔انسان اپنی غلاظت کو کاربن اورپسینہ اوربول وبراز کی صورت میں خارج کرتا ہے مگر خدا نے اپنی دنیا میں جو درخت اُگائے ہیں  وہ اس کے برعکس اپنی کثافت کو آکسیجن کی صورت میں خارج کرتے ہیں  اورپھول اپنی کثافت کو خوش بو کی صورت میں۔انسان کے بنائے ہوئے تمام شہروں میںکوڑے کو ٹھکانے لگانا ایک ناقابل حل مسئلہ بناہوا ہے۔مگر خدا کی بنائی ہوئی وسیع تر دنیا میں ہر روز بڑے پیمانہ پر ’’کوڑا‘‘نکلتا ہے مگرکسی کو پتہ نہیں چلتا۔کیوںکہ اس کو (Recycle)کرکے دوبارہ کائنات کے مفید اجزاء میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔جو شخص حقیقت کی جھلک دیکھ لے تو وہ اس کے بیان سے اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگتا ہے۔اس پر چپ طاری ہوجاتی ہے نہ یہ کہ وہ لفظوں کا سیلاب بہانے لگے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom