ایمان میں اضافہ
ایک سائنس داں نے کہا ’’فطرت کا مطالعہ میرا مذہب ہے۔جس دن میں فطرت کی کوئی نئی چیز نہیں دریافت کرتا ،میں سمجھتا ہوں کہ وہ دن میں نے ضائع کردیا ‘‘۔یہ اس انسان کا حال ہے جو مخلوقات میں جیتا ہے۔پھر اس انسان کا حال اس سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے جو خالق میں جیتا ہو۔جس طرح سائنس دان ہر روز مخلوقات میں کوئی نئی چیزدریافت کرتا ہے، اسی طرح مومن کو ہرروزخالق کی نسبت سے کوئی ایسی چیز پانا چاہیے جو اس کے ایمان میں اضافہ کرنے والی ہو۔مومن جس روز کوئی نئی چیز نہ پائے ،وہ دن گویا اس نے ضائع کردیا ،اس دن گویا خدا سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا۔
ایمان خدا کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔خداایک مسلسل حقیقت ہے جس کی کوئی حد نہیں ، اس لیے اس کی دریافت بھی ایک مسلسل واقعہ ہے جس کی کوئی انتہانہیں ۔جو ایمان اضافہ پذیر نہ ہو وہ غفلت کی ایک قسم ہے ،اس کو حقیقی معنوں میں ایمان نہیں کہا جا سکتا ۔
جس کا ذہن خدا کی طرف متوجہ ہو ،جس کا دل خدا کی طرف لگا ہوا ہو،اس کو باربار خداکی نئی تجلیات کا ادراک ہوتا ہے۔وہ بار بار خدا کی نئی جھلک پاتا رہتا ہے۔جس طرح خدا کے کمالات کہیں ختم نہیں ہوتے ،اسی طرح مومن کا سفر ِمعرفت بھی کسی حد پر ختم نہیں ہوتا۔
یہ نئی معرفت کبھی ایسی ربانی کیفیات کی صورت میں امنڈتی ہے جس سے وہ اس سے پہلے کبھی آشنا نہیں ہواتھا۔کبھی ایسے دعائیہ الفاظ کے روپ میں بے اختیار اس کی زبان پر آجاتی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔کبھی وہ خدا کی حکمتوں میں سے کسی ایسی حکمت کا راز پا لیتا ہے جو اس سے پہلے اس پر نہیں کھلے تھے۔ وہ خدا کی قربت کا ایسا تجربہ کرتا ہے جو اِس سے پہلے کبھی اس کے علم میں نہیں آئے تھے۔کبھی اس پر ایسے نئے معانی کا القاء ہوتا ہے۔جس کے اظہار کے لیے اس کے تمام معلوم الفاظ عاجز نظر آنے لگتے ہیں ۔