جنت والے
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — اہل ایمان کو جس جنت میں داخل کیا جائے گااس کی معرفت انہیں اسی دنیا میں کرائی جاچکی ہوگی:وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ (47:6)۔دوسری جگہ ارشاد ہواہے کہ — جنت کا رزق اس رزق کے مشابہ ہوگا جس کی توفیق انہیں دنیا کی زندگی میں ملی تھی:وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (2:25)۔حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت دوزخ دراصل انسان ہی کے اعمال ہیں جو آدمی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں :إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ تُرَدُّ إِلَيْكُمْ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، جلد5، صفحہ 125)۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں داخلہ کا آغاز اِسی دنیا سے ہوجاتا ہے۔جنتی انسان اپنی جنت کو اسی دنیا میں پالیتا ہے۔گویا کہ جنت کا ایک مثنیٰ اسی دنیا میں ہے اور آخرت کی جنت میںوہی شخص جائے گاجس نے دنیا میںجنت کے اس مثنیٰ کو پالیا ہو۔ جنت کا یہ دنیوی مثنیٰ گویا نقد انعام ہے جو اصل انعام سے پہلے اس کی ایک ابتدائی علامت کے طور پر دے دیاجاتاہے۔
یہ جنتی کون ہے۔یہ وہ شخص ہے جس نے دنیا میں ان کیفیات کا تجربہ کیا ہوجو آخرت میں اس کو جنت کا مستحق بنانے والی ہیں ۔جس کے رونگٹے کھڑے ہوکر اس کو خدائی محاسبہ کا احساس دلا چکے ہوں۔ جس کے قلب پر ٹکڑے کردینے والی تجلیات کے نزول نے اس کو قربت خداوندی سے آشنا کیا ہو۔ جس نے بغض وانتقام کے جذبات کو اپنے اندر کچل کر عفوخداوندی کا مشاہدہ کیا ہو۔جس نے اپنے ندامت کے آنسوئوں میں وہ منظر دیکھا ہو جب کہ ایک مہربان آقا اپنے خادم کے اعتراف قصور پر اس سے درگزر فرماتا ہے۔جس پر یہ لمحہ گزراہو کہ ایک شخص پر قابو پانے کے باوجود وہ اس کو اس لیے چھوڑدے کہ اس کا خدابھی اس دن اسے چھوڑدے جب کہ وہ اس سے زیادہ عجز کی حالت میں ہوگا۔جو ایک امر حق کے آگے اس طرح گرپڑے جیسے لوگ آخرت میں خدا کو دیکھ کر ڈھ پڑیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ مومن جنت کا ایک پھول ہے۔وہ موجودہ دنیا میں آنے والی دنیا کا ایک ابتدائی شگوفہ ہے۔مومن پر وہ سارے تجربات اسی دنیا میں گزرجاتے ہیں جو دوسروں پر موت کے بعد گزرنے والے ہیں ۔آدمی کی زندگی میں مختلف قسم کے جو حالات پیش آتے ہیں انہیں میں ہر آدمی کی جنت اورجہنم چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ان حالات میں شیطانی رد عمل پیش کرکے کوئی شخص جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے اورملکوتی رد عمل پیش کرکے کوئی شخص جنت کا۔