پانے والا

قرآن میںجو کردار بیان ہوئے ہیں  ،ان میں سے ایک قارون ہے۔وہ اسرئیلی تھا اور موسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر تھا۔مصر کے قبطی حکمرانوں کاساتھ دے کر اس نے بے حساب دولت اپنے پاس جمع کرلی تھی۔ایک روز وہ اپنی پوری شان کے ساتھ لوگوں کے سامنے نکلا۔اسرائیلیوں میں سے کچھ لوگ اس کو دیکھ کر مرعوب ہوگئے۔انھوں نے کہا :قارون بھی کیسا خوش قسمت ہے۔کاش ہم کو بھی وہ چیز حاصل ہوتی جو اس کو ملی ہوئی ہے۔

اسرائیلیوںمیں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو سچائی کو پائے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا:قارون کی دنیوی شان وشوکت پر رشک نہ کرو۔ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اصل خوش قسمتی تو یہ ہے کہ آدمی کو آخرت کی کامیابی حاصل ہو۔اورآخرت کی کامیابی کا کوئی تعلق دنیا کی چمک دمک سے نہیں  ہے۔وہ تو صرف انہیں کو ملے گی جو سچے مومن ہوں اور وہ کام کریں جو اللہ کو پسند ہے۔اسرائیلی علماء کا یہ جواب نقل کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہواہے:وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ(28:80)۔ یعنی،اور یہ بات انہیں  کو دی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں  ۔

یعنی حقیقت کا یہ مقام کہ آدمی دنیا کی شان وشوکت سے اوپر اٹھ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔بڑے تپ کا مقام ہے۔یہ انہیں لوگوں کے حصہ میں آتا ہے جو دنیا کی زینتوںکی طرف دوڑنے سے اپنے کو بچائیں۔جو اپنی سوچ اوراپنی دلچسپیوں کو نمائشی چیزوں میں نہ الجھائیں۔ جو وقتی ہنگاموں میں کھونے کے بجائے ابدی کائنات میں مصروف رہتے ہوں۔جودنیا سے گزرکر آخرت میں جینے لگے ہوں۔یہ بڑے تپ کا کام ہے۔اس میں اپنے آپ کو جانتے بوجھتے ذبح کردینا پڑتا ہے۔مگر اعلیٰ سچائی کو پانے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ۔رجھانے والی دنیا میں رہ کر جو اپنے آپ کوریجھنے سے بچا سکے اسی پر بالا تر حقیقتوں کا راز کھلتا ہے۔جو سامنے کی چمک دمک میں کھو گیا وہ کبھی آگے کی اعلیٰ تر چیزوں سے آشنا نہیں  ہوسکتا۔

دنیوی ہوشیاری دکھانا بلا شبہ دنیا میںآدمی کو عزت اورترقی عطا کرتا ہے۔مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ’’دنیوی ہوشیاری ‘‘ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو آخرت کی ہوشیاری سے محروم کردیتی ہے۔آخرت کی عقل اسی کے حصے میں آتی ہے جو دنیا کی محرومیوں کو جھیلنے کے لیے تیار ہو،جودنیوی مصلحتوں کو حق کی خاطر قربان کرسکے ،جو ظاہری عزتوں پرگمنامی کی زندگی کو ترجیح دے سکے،جو عوامی مقبولیت کو عوامی نا مقبولیت کے بدلے میں دے سکے ،جو ملتے ہوئے مفادات کی قیمت دے کر ذاتی نقصان کو خرید سکے،جو نفس کی تسکین کر چھوڑ کر نفس کو دبانے کے راستہ پر چلنے کے لیے تیار ہو۔دنیا کی رونقوں میں نہ بہنا بڑاپر مشقت عمل ہے مگر اسی شخص پر معرفت حق کے دروازے کھلتے ہیں  جو اس مشقت کو برداشت کرے،دنیا کی محرومی پر قانع ہونا بڑے صبر کا کام ہے مگر جو دنیا کی محرومیوں پر صبر کرتا ہے وہی وہ شخص ہے جس کو اِس لیے چنا جاتا ہے کہ حکمت کے موتیوں سے اس کے دامن کو بھر دیا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom