موت کے آگے
فرانس کے لوئی یازدہم (1423-1483)نے ساٹھ سال تک بادشاہ کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔چنانچہ آخر عمر میںوہ ایک بند قلعہ میں رہنے لگا جہاں بہت کم لوگوں کو داخلہ کی اجازت تھی۔قلعہ کے چاروں طرف گہری خندق کھوددی گئی تھی تاکہ کوئی اس کے قریب نہ پہنچ سکے۔قلعہ کی دیواروں پر ہر وقت چالیس تیر انداز بیٹھے رہتے تھے۔اس کے علاوہ چالیس گھڑسواردن رات اس کے چاروں طرف گشت کرتے رہتے تھے۔بادشاہ کا حکم تھا کہ جو بھی بلااجازت قلعہ کے اندر آنے کی کوشش کرے اس کو پکڑکراسی وقت قتل کردیا جائے۔قلعہ کے اندر بادشاہ کے لیے ہر قسم کا عیش وعشرت کا سامان کیا گیا تھا تاکہ بادشاہ کا دل کبھی غمگین نہ ہونے پائے۔
لوئی یازدہم کو زندہ رہنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ موت کا لفظ اس کے سامنے ہرگز نہ بولا جائے۔ایک ماہر ڈاکٹرہرآن بادشاہ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ اس ڈاکٹر کو دس ہزار سنہری کراون ماہواردیے جاتے تھے۔اس وقت یورپ کے کسی میدان جنگ میںچالیس سال کام کرکے بھی ایک فوجی افسر اتنی تنخواہ حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
تاہم ان میںسے کوئی چیز بادشاہ کو بڑھاپے اورکمزوری سے نہ بچا سکی۔آخر عمر میں وہ اتنا کمزورہوچکا تھا کہ مشکل سے وہ کھانے کی کوئی چیز اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی جینے کی خواہش وہم کی حدتک پہنچ گئی تھی۔اس کو کسی نے بتایا کہ کچھوے پانچ سو سال تک جیتے ہیں اوروہ زندگی بخش خواص کے مالک ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس نے کچھ لوگوں کو تین بحری جہازدیکر جرمنی اوراٹلی روانہ کیاتا کہ وہاں سے اس کے لیے بحری کچھوے لے آئیں۔یہ کچھوے اس کے قریب ایک بڑے حوض میںرکھے گئے تاکہ اس کو زندگی کا فیضان عطا کر سکیں۔
آخر کار لوئی پر فالج کاحملہ ہوااور30اگست 1483کو موت نے اس پر قابوپالیا۔اس کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت کو نہیں جیت سکتا۔اس کی زبان سے جو آخری الفاظ مرنے سے پہلے نکلے وہ یہ تھے :
’’میں اتنا بیمار تو نہیں ہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتے ہیں ‘‘
تاہم اس کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں۔30اگست 1483کو وہ مرگیا۔آخر کار بادشاہ فرانس کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا۔