جنازہ کو دیکھ کر
مرحوم کا جنازہ لوگ کا ندھوں پر اٹھائے ہوئے قبرستان کی طرف جارہے تھے۔ اور میرے ذہن میں ایک پوری تصویر جاگ رہی تھی۔مرحوم کے اس آخری سفر میںمجھے انسان اپنے آغاز سے اپنے انجام کی طرف جاتا ہوانظر آرہا تھا۔
آدمی پیدا ہوکر دنیا میں آتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں کی شفقت اور باپ کی سر پرستی حاصل ہوجاتی ہے۔وہ عزیزوں اوردوستوں کے درمیان پرورش پاتا ہے۔پھر وہ بڑاہوکر ایک بااختیار انسان کی حیثیت سے زمین پر اپنی زندگی بناتا ہے۔
آدمی کا یہ سفر جاری رہتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے۔اب اس کے وہی دوست اوررشتہ دار جو دنیا میں اس کے مددگاربنے ہوئے تھے ،اس کو اٹھا کرلے جاتے ہیں اورزمین کے ایک ایسے گڑھے میں ڈال کر بند کردیتے ہیں جہاں آدمی بالکل اکیلا ہوتا ہے۔جہاں وہ ہوتا ہے اور اس کا خدا۔
آدمی اب تک اپنے جیسے انسانوں کے سامنے تھا ،اب وہ برتر خدا کے سامنے ہوتا ہے۔اب تک وہ اختیار کی دنیا میں تھا ،اب وہ بے اختیاری کی دنیا میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔کیسا عجیب ہوگا وہ لمحہ جب ایک عاجز مطلق ایک قادر مطلق کے سامنے کھڑا ہوگا۔
موت کا یہ واقعہ ہر روز زمین کے اوپر ہوتا ہے۔ہر روز آدمی کسی نہ کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے ،مگر اس کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔
’’احساس تو جب ہو جب کہ آدمی کے دماغ میںجنت اور جہنم ہو‘‘میں نے سوچا۔ لوگوں کی سوچ بالکل دوسرے رخ پر چل رہی ہے۔لوگوں کے ذہن میں دوستی ،رشتہ داری ، کمانا اورگھر بنانا ،جیسے مسائل بھرے ہوئے ہیں ۔وہ کسی آدمی کو اسی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ جب کوئی آدمی مرتا ہے تو وہ اس کے متعلق بس اتنا سوچ پاتے ہیں کہ ایک ساتھی بچھڑ گیا۔ ایک کمانے والا فرد ہم سے رخصت ہوگیا۔وہ صرف دنیا کے ساتھ انسان کے تعلقات کو جانتے ہیں ۔وہ آخرت کے ساتھ انسان کے تعلقات کو نہیں جانتے ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ وہ جنازہ میں انسان کی خدا کے سامنے حاضری کو دیکھیں۔وہ موت کے سفر میں انسان کے آخرت کی طرف سفر کا مشاہدہ کریں۔